Tafseer-e-Majidi - Maryam : 71
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا١ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْكُمْ : تم میں سے اِلَّا : مگر وَارِدُهَا : یہاں سے گزرنا ہوگا كَانَ : ہے عَلٰي : پر رَبِّكَ : تمہارا رب حَتْمًا : لازم مَّقْضِيًّا : مقرر کیا ہوا
اور تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا گزر اس تک نہ ہو یہ آپ کے پروردگار پر لازم ہے جو پورا ہو کر رہے گا،104۔
104۔ (اے نوع انسان ! ) خطاب عام نوع انسانی سے ہے۔ ایھا الناس (ابن جریر) واولی الاقوال فی ذلک بالصواب قول من قال یردھا الجمیع (ابن جریر) التفات الی الانسان (بیضاوی) قال الاکثرون انہ عام فی کل مومن و کافر (کبیر) یعنی دوزخ سے گزر تو بہرحال سب ہی کا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ مومنین کو اس سے ضرر ذرا بھی نہ پہنچے۔ جس طرح خود ملائکہ دوزخ کو دوزخ سے تکلیف مطلق نہ ہوگی، دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ خطاب صرف اہل طغیان سے ہے جن کا ذکر اوپر سے چلا آرہا ہے۔ بمعنی الکفار لا یردھا مومن (ابن جریر۔ عن ابن عباس ؓ قال عکرمۃ الایۃ فی الکفار (معالم) قال بعضھم المراد من تقدم ذکرہ من الکفار (کبیر) (آیت) ” واردھا “۔ ورود سے یہاں مراد داخلہ نہیں بلکہ محض پہنچنا یا گزر ہونا ہے۔ قال قوم لیس المراد من الورود الدخول والمراد الحضور والرویۃ (معالم) قال عبدالرحمن بن زید بن اسلم ورود المسلمین المرور علی الجسربین ظھراینھا وورود المشرکین ان یدخلوھا (ابن کثیر) قال بعضھم الورود الدنومن جھنم وان یصیروا حوالھا (کبیر) خود قرآن مجید میں بھی فعل ورد دوسرے مقامات پر اس معنی میں آیا ہے۔ مثلا (آیت) ’ فارسلوواردھم “۔ (یوسف) (آیت) ” ولما وردمآء مدین “۔ (قصص) (آیت) ” کان ..... مقضیا “۔ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ واجب کوئی بھی شے نہیں۔ اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ حق تعالیٰ کے حق میں وجوب بہ معنی اضطرار ولزوم مواخذہ ممتنع ہو (خدا کا فعل بھی اگر اضطراری یا کوئی قابل مواخذہ ٹھہر گیا تو ظاہر ہے کہ وہ خدا کہاں باقی رہا ؟ ) لیکن یہ وجوب ولزوم اگر تیقن وقوع کے معنی میں لیا جائے تو ممنوع نہیں اور یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اللہ کے ارادہ واختیار سے یہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ یہ لزوم ووجوب اختیاری ہے اور جو ممنوع ہے، وہ غیر اختیاری واضطراری ہے۔
Top