Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا
: اور انہوں نے پیروی کی
مَا تَتْلُوْ
: جو پڑھتے تھے
الشَّيَاطِیْنُ
: شیاطین
عَلٰى
: میں
مُلْكِ
: بادشاہت
سُلَيْمَانَ
: سلیمان
وَمَا کَفَرَ
: اور کفرنہ کیا
سُلَيْمَانُ
: سلیمان
وَلَٰكِنَّ
: لیکن
الشَّيَاطِیْنَ
: شیاطین
کَفَرُوْا
: کفر کیا
يُعَلِّمُوْنَ
: وہ سکھاتے
النَّاسَ السِّحْرَ
: لوگ جادو
وَمَا
: اور جو
أُنْزِلَ
: نازل کیا گیا
عَلَى
: پر
الْمَلَکَيْنِ
: دوفرشتے
بِبَابِلَ
: بابل میں
هَارُوْتَ
: ہاروت
وَ مَارُوْتَ
: اور ماروت
وَمَا يُعَلِّمَانِ
: اور وہ نہ سکھاتے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
حَتَّی
: یہاں تک
يَقُوْلَا
: وہ کہہ دیتے
اِنَّمَا نَحْنُ
: ہم صرف
فِتْنَةٌ
: آزمائش
فَلَا
: پس نہ کر
تَكْفُر
: تو کفر
فَيَتَعَلَّمُوْنَ
: سو وہ سیکھتے
مِنْهُمَا
: ان دونوں سے
مَا
: جس سے
يُفَرِّقُوْنَ
: جدائی ڈالتے
بِهٖ
: اس سے
بَيْنَ
: درمیان
الْمَرْءِ
: خاوند
وَ
: اور
زَوْجِهٖ
: اس کی بیوی
وَمَا هُمْ
: اور وہ نہیں
بِضَارِّیْنَ بِهٖ
: نقصان پہنچانے والے اس سے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
اِلَّا
: مگر
بِاِذْنِ اللہِ
: اللہ کے حکم سے
وَيَتَعَلَّمُوْنَ
: اور وہ سیکھتے ہیں
مَا يَضُرُّهُمْ
: جو انہیں نقصان پہنچائے
وَلَا يَنْفَعُهُمْ
: اور انہیں نفع نہ دے
وَلَقَدْ
: اور وہ
عَلِمُوْا
: جان چکے
لَمَنِ
: جس نے
اشْتَرَاهُ
: یہ خریدا
مَا
: نہیں
لَهُ
: اس کے لئے
فِي الْاٰخِرَةِ
: آخرت میں
مِنْ خَلَاقٍ
: کوئی حصہ
وَلَبِئْسَ
: اور البتہ برا
مَا
: جو
شَرَوْا
: انہوں نے بیچ دیا
بِهٖ
: اس سے
اَنْفُسَهُمْ
: اپنے آپ کو
لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ
: کاش وہ جانتے ہوتے
اور (یہ لوگ) پیچھے لگ لئے،
352
۔ اس (علم) کے جو سلیمان کی بادشاہت میں شیطان پڑھا کرتے تھے،
353
۔ اور سلیمان (علیہ السلام) نے (تو کبھی) کفر نہیں کیا،
354
۔ البتہ شیطان (ہی) کفر کیا کرتے تھے،
355
۔ لوگوں کو سحر کی تعلیم دیتے،
356
۔ اور (وہ پیچھے لگ لیے) ف، ،
357
۔ اس (علم) کے بھی جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت وماروت پر اتارا گیا تھا،
358
۔ اور وہ دونوں کسی کو بھی (اس فن کی باتیں) نہیں بتاتے تھے،
359
۔ جب تک یہ نہ کہہ دیتے،
360
۔ کہ تم تو بس ایک (ذریعہ) امتحان ہیں،
361
۔ سو تم (کہیں) کفر نہ اختیار کرلینا،
362
۔ مگر (لوگ) ان دونوں سے وہ (سحر) سیکھ ہی لیتے،
363
۔ جس سے وہ جدائی ڈال دیتے درمیان مرد اور اس کی زوجہ کے،
364
۔ حالانکہ وہ (فی الواقع) کسی کو بھی اس کے ذریعہ سے نقصان نہ پہنچا سکتے مگر ہاں ارادہ الہی سے،
365
۔ اور یہ وہ چیز سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے اور انہیں نفع نہیں پہنچا سکتی،
366
۔ اور (یہ بھی) یہ خوب جانتے ہیں،
367
کہ جس نے اسے اختیار کرلیا اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں،
368
۔ اور بہت ہی بری وہ چیز ہے جس کے عوض میں انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا ہے۔
369
۔ کاش وہ (اتنا ہی) جانتے،
370
۔
352
۔ ذکر اسرائیلیوں کا چل رہا ہے۔ اور وہی یہاں مراد ہیں، خصوصا یہود عرب۔
353
۔ یعنی بجائے اس کے کہ وحی الہی کا اتباع کرتے اور رسول برحق کی تصدیق کرتے، یہ یہود تو ایک اور ہی علم کے پیچھے لگ گئے اور وہ علم بھی کس کا ؟ شیطان کا۔ قرآن مجید وقت کی اہم ترین قوم یہود کے پترے تو کھول ہی رہا ہے۔ اب اس نے ان کی فرد جرم میں ایک اس عنوان کا بھی اضافہ کیا کہ یہ لوگ وحی الہی کی اتباع کے بجائے ایک دوسرے ہی سفلی علم میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس ضمن میں قرآن مجید بعض اور اہم تاریخی اور دینی حقیقتوں کو زبردست روشنی میں لے آیا ہے۔ اس علم سے مراد فن سحر ہے۔ فنون سحر وکہانت میں یہود کی مہارت تاریخ میں مسلم چلی آرہی ہے۔ ان کے اکابر ومشاہیر اس کا برابر اعتراف کرتے آئے ہیں بلکہ اکثر فخر کے ساتھ۔ قرآن مجید نے اکثر تاریخی حقائق کی طرح ان کی تفصیلات میں گئے بغیر، یہاں بھی صرف اشارہ کردینا کافی سمجھا ہے۔ یہود کا یہ شوق ان کی قدیم تاریخ سے قطع نظر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی قائم تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا یہودی النسل و یہود خصلت پروفیسر مارگولیس آنجہانی، جس کی اسلام دشمنی ضرب المثل کی حد تک پہنچی ہوئی ہے، اپنی انگریزی سیرت رسول میں معاصر یہود عرب کے سلسلہ میں لکھتا ہے :۔ ” یہ لوگ فن سحر کے ماہر تھے اور بجائے میدان جنگ میں آنے کے سفلی عملیات کو ترجیح دیتے تھے “۔ صفحہ
189
۔ اصل عبارت اور مزید حوالوں کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ اور ہمارے مفسرین نے بھی اس سحر پرستی میں یہ ود عہد سلیمانی اور یہود عہد محمدی کو شریک سمجھا ہے۔ قیل یہود زمان سلیمان وقیل یھود زماننا واللفظ فیھم عام ولجمیعھم محتمل وقد کان الکل منھم متبعا لھذا لباطل (ابن عربی) ۔ شیاطین۔ جب صیغہ جمع میں ہے تو ظاہر ہے کہ ابلیس تو یہاں مراد ہو نہیں سکتا۔ اہل لغت اور اکابر اہل تفسیر دونوں کی رائے ہے کہ شیطانوں سے مراد یہاں خبیث و سرکش قسم کے جنات ہیں جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع تھے۔ اے مردۃ الجن (راغب) المراد شیاطین الجن وھو قول الاکثرین (کبیر) والمتبادر من الشیاطین مردۃ الجن وھو قول الاکثرین (روح) وھم المتمردون من الجن (ابوسعود) لیکن خود جنات کیا ہیں ؟ جنات سے مراد وہ صاحب شعور وادراک ہستیاں ہیں جن کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور جو انسانی آنکھ کو عموما اور عادۃ نظر نہیں آتے۔ انسان کی طرح وہ بھی مکلف ہیں گویہ ضرور نہیں کہ ان کی شریعت بھی جزئیات وتصیلات کے لحاظ سے شریعت انسانی ہو۔ اس آتشیں مخلوق کا وجود دلائل نقلی و شواہد سے پوری طرح ثابت ہے۔ اور اس وجود سے انکار پر کوئی ایک دلیل بھی قائم نہیں نہ عقلی نہ نقلی، بعض کا قول ہے کہ مراد شیاطین انس ہیں۔ یعنی وہ سرکش وخبیث انسان جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خلاف ماہر تھے۔ فرقہ معتزلہ کے متکلمین کا رجحان اسی معنی کی طرف ہے۔ قیل شیاطین الانس وھو قول المتکلمین من المعتزلۃ (کبیر) راغب لغوی نے بھی معنی جس طرح سرکش جنات کے جائز رکھے ہیں اسی طرح سرکش انسانوں کے بھی، فھم مردۃ الجن ویصح ان یکونواھم ومردۃ الانس ایضا (راغب) اور مفسرین اہل سنت نے بھی گنجائش دونوں کے لیے رکھی ہے۔ الشیاطین من الجن والانس اور منھما (بیضاوی) وھو یرید شیاطین الجن والانس (جصاص) اگر انسان ہی مراد لیے جائیں، یعنی دربار سلیمانی کے باغی سردار وسرغنہ، تو ان کا مفصل ذکر عہد عتیق کے بعض صحیفوں میں ملتا ہے۔ ملاحظہ ہوا۔ سلاطین باب
1
1
،
12
، علی ملک سلیمن۔ “ یعنی آپ کے عہد حکومت میں۔ علی۔ صرف استعلاء کے لیے نہیں، بلکہ مصاحبت تعلیل وغیرہ کی طرف ظرفیت کے لیے بھی آتا ہے۔ اور فی کے معنی میں اس کا استعمال عام ہے۔ ابن جریر جو عربیت کے بھی امام ہیں لکھتے ہیں :۔ والعرب تضع فی فی موضع علی وعلی فی موضع فی اور عرب فی کا استعمال علی کی جگہ پر کرتے ہیں اور علی کا استعمال فی کے موقع پر۔ اور اتقان (سیوطی) میں اس معنی کی تصریح ہے اور اہل لغت لکھتے ہیں : کان ذلک علی عہد فلان اے فی عہد فلان (تاج) فلاں واقعہ علی عہد فلاں ہوا، اس کے معنی ہوتے ہیں ” فی عہد فلاں “ ہوا۔ خود قرآن مجید میں بھی علی ایک دوسری جگہ صاف فی کے معنی میں آیا ہے (آیت) ” ودخل المدینۃ علی حین غفلۃ “ (قصص، ع
2
) اے فی حین غفلۃ، چناچہ یہاں بھی اہل تحقیق نے یہی معنی لیے ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) کے عہد حکومت میں اے علی عہد سلیمان (ابن کثیر) اے فی عہد ملکہ (ابو سعود) اے فی عہد سلیمان (ابن جریر) اے فی ملکہ وعہدہ (معالم) (آیت) ” سلیمن “ سلیمان بن داؤد (
990
ق، م تا
930
ق، م غالبا) اسرائیلی سلسلہ کے ایک نامور پیغمبر گزرے ہیں، اور اپنے والد ماجد ہی کی طرح، لیکن ان سے بڑے تاجدار بھی۔ شام و فلسطین کے علاوہ آپ کے حدود حکومت مشرق کی سمت میں عراق کے دریائے فرات کے ساحل تک اور مغرب میں سرحد مصر تک وسیع تھے ؛۔ آپ کی سلطنت کی عظمت و شوکت پر دوست دشمن سب کو اتفاق ہے۔ اسلام میں اعلی سے اعلی روحانی واخلاقی مرتبہ، یعنی نبوت و رسالت کے ساتھ جس طرح فقر وفسکنت جمع ہوسکتے ہیں اسی طرح دولت وامارت، حکومت و ریاست بھی۔ اسلام کا خدا غریبوں اور امیروں، ناداروں اور زرداروں سب کا یکساں خدا ہے۔ آیت کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح ان یہود کے آباؤ اجداد عہد سلیمانی میں شیطانی مشغلوں (سحر وکہانت) میں لگے رہے اسی طرح آج خود بھی بجائے نبی کی ہدایتوں پر چلنے کے انہیں سفلی مشغلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
354
۔ (جیسا کہ ناسپاسوں، کافروں، افترا پردازوں نے مشہور کر رکھا ہے) آیت کے اس مقام پر پہنچ کر مومن کے قلب میں ذرا کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ یہ کہنے والی کون سی بات تھی جو قرآن نے فرمادی ؟ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) پیغمبر برحق تھے، تو یہ تو کھلی ہوئی اور موٹی سی بات ہے کہ آپ شائبہ کفر وشبہ کفر سے بہ مراحل دور تھے۔ پیغمبر کے حق میں یہ نازل ہونا کہ وہ کفر سے بری تھے، یہ تو کچھ ایسی ہی بات ہوئی، جیسے کسی ملک کا بادشاہ یہ فرمان جاری کرکے رعایا کو بتائے کہ ہمارا نائب السلطنت باغی وغددار نہیں ہے۔ کھٹک بجا ہے۔ قرآن مجید کبھی کوئی چھوٹا سابیان بھی بےضرورت نہیں دیتا، مگر یہاں قرآن کو اس اعلان واعلام کی ضرورت تھی، اس ضرورت کا علم سادہ دل مسلمان کو کیا ہوسکتا ہے ؟ اس کا علم تو اس کے ہمہ بین وہمہ دان پروردگار ہی کو ہوسکتا تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) کو پیغمبر ماننے والی دو قومیں مسلمانوں سے پہلے بھی ہوچکی ہیں۔ یہ دونوں وہی ہیں جو اہل کتاب کہلاتی ہیں۔ یعنی یہودونصاری۔ ان دونوں کے اکابر نے ستم ظریفی کا کمال یہ دکھایا ہے کہ ایک طرف تو ان کی عظمت و پیغمبری کے قائل ہیں۔ اور دوسری طرف ان کے نامہ اعمال میں گندے سے گندے جرائم بھی ڈال دیئے ہیں ! یہاں تک کہ کفر وشرک بھی ! کہ اللہ کی عدالت میں کوئی جرم اس سے بڑھ کر یا اس کے برابر بھی سنگین تصور میں نہیں آسکتا، یہودی قصص و حکایات اور مسیحی آثار وروایات کی کتابوں کو چھوڑیے۔ خاص الخاص بائبل یعنی عہد عتیق کے صحائف، جن پر یہودونصاری دونوں کا ایمان ہے، انہیں ملاحظہ فرمالیجئے کہ اس مجموعہ میں آج تک کیا تصریحات لکھی چلی آرہی ہیں :۔ ” جب سلیمان بوڑھا ہوا تو اس کی جو رؤوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا، اور اس کا دل اپنے خدا کی طرف سے کامل نہ تھا “۔ (
1
۔ سلاطین۔
1
1
:
4
،
10
) یعنی محض غفلت یا عدم اعتناء کی بنا پر عملی کوتاہی یا عصیان نہیں، صریح بدعقیدگی۔ توحید ہی کی طرف سے بےیقینی !۔ آگے اور ملاحظہ ہو :۔ سو از بس کہ اس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے برگشتہ ہوا، اس لیے خداوند سلیمان پر غضبناک ہوا کہ اس نے اسے حکم دیا تھا کہ وہ اجنبی معبودوں کی پیروی نہ کرے، پر اس نے اپنے خداوند کے حکم کو یاد نہ رکھا۔ “ (
1
۔ سلاطین۔
1
1
،
9
،
10
) معاذ اللہ۔ خدا کا پیغمبر اور کفر وشرک میں مبتلا ! کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی ! دنیا سینکڑوں سال تک، ہزار ڈیڑھ ہزار سال تک، انہیں یہود یا نہ تحریفات واختراعات کا شکار ہو کر اس موحد اعظم کو نعوذ باللہ کافر و مشرک سمجھتی رہی۔ یہاں تک کہ قرآن آیا، جوہر قوم ہر زمانہ کے سچے پیغمبروں کی عزت وناموس کا محافظ ہے۔ اور اس نے آکر یقین نہ کرنے والی دنیا کے سامنے آکر، اعلان کیا کہ سلیمان کو معاذ اللہ کافر کہتے ہو ! وہ تو کفر کے قریب تک نہیں گئے تھے ! قرآن کی صدائے حق فضا میں بلند ہو کر خاموش ہوگئی۔ جن کے کان تھے انہوں نے سنا، دنیا اپنے کاروبار میں لگی رہی، پھنسی رہی۔ بائبل والوں نے بائبل کی پرستاری نہ چھوڑی۔ یہاں تک کہ تیرہ، ساڑھے تیرہ صدیاں اور گزر گئیں، اور اب قدرت حق کا اعجاز دیکھئے کہ اب جو محققانہ وفاضلانہ کتب جوامع وحاویات بائبل ہی کے پرستاروں کے قلم سے نکل رہی اور شائع ہورہی ہیں وہ تائید اور تصدیق بائبل کی الزام دہی کی نہیں، قرآن کے جواب صفائی کی کررہی ہیں ! انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، برطانوی کا وش وتحقیق کا لب لباب ہوتا ہے، اس کے سب سے آخری ایڈیشن میں مقالہ زیر عنوان سلیمان نکال کر دیکھئے، صاف یہ مضمون ملے گا۔ ” سلیمان خدائے واحد کے مخلص پرستار تھے “۔ (جلد
2
۔ صفحہ
952
طبع چہاردہم) انسائیکلوپیڈیا ببلیکا، خاص مسیحی ہی فضلاء اور پرستاران بائبل کی جو آیتیں ابھی اوپر نقل ہوچکی ہیں، ان کا حوالہ دے کر یہ لکھ دیا ہے کہ یہ عبارتیں بعد کو بڑھائی گئی ہیں، اور الحاق ہیں ! اور پھر لکھا ہے :۔ ” یہ تو غالبا صحیح ہے کہ سلیمان کی بیویاں متعدد تھیں، اسرائیلی بھی غیر اسرائیلی بھی، لیکن انہوں نے نہ تو سب کے لیے قربان گا ہیں ہی تیار کرائیں، اور نہ خود خدائے واحد کی پرستش کے ساتھ ساتھ اپنی بیویوں کے دیوتاؤں کی پرستش کا تجربہ ہونے دیا “۔ (کالم
89
۔
46
) خیر، یہ اعجاز تو کلام الہی کا تھا، اس سے بڑھ کر بھی ہوتا تو ہوسکتا تھا۔ لیکن محدود وناقص عقل اور زمان ومکان سے مقید علم رکھنے والے بندوں نے اپنی ایمانی فراست واشراقیت سے جو کام کر دکھایا ہے، وہ بھی اعجاز سے کچھ کم نہیں۔ رئیس المفسرین امام ابن جریر، آج کے نہیں، آج سے ایک ہزار سال قبل کے شخص ہیں، اور یہود ونصاری کی کتابوں سے شاید زیادہ واقف بھی نہ ہوں۔ آج نہیں، اس وقت اپنی تفسیر میں یہ روایات بصراحت درج کرگئے ہیں کہ آیت بالایہود ہی کے گندے عقائد اور افتراء کے رد میں نازل ہوئی ہے جو آپس میں کہتے تھے کہ ان نئے مدعی نبوت کی نادانی تو دیکھو، کہ ابن داؤد (علیہ السلام) کو قال بعض احبار الیھود الا تعجبون من محمد یزعم ابن داؤدکان نبیا واللہ ما کان الا ساحرا فانزل اللہ فی ذلک من قولہم وما کفر سلیمن الخ نبی اللہ کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں۔ حالانکہ بخدا وہ تو بس ایک ساحر تھا۔ اللہ نے انہیں کے قول کے رد میں یہ آیت نازل کی ہے (آیت) ” وما کفر سلیمن الخ “
355
۔ (اور اسے منسوب حضرت (علیہ السلام) کی جانب کردیتے تھے) ان شیطانوں کی (خواہ وہ جن ہوں یا انس) ایک شیطنت یہ بھی تھی کہ اپنی کافرانہ، ساحرانہ حرکتوں کی نسبت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی جانب کردیتے تھے، اور شہرت یہ دے دیتے تھے کہ ہم تو یہ جو کچھ کررہے ہیں، ان کی رضا مندی بلکہ ان کے اشارہ ہی سے کررہے ہیں، ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کے نبی برحق (علیہ السلام) کو ان گندگیوں سے کیا واسطہ ہوسکتا تھا۔ قرآن کریم نے کس کس طرح دوسری امتوں کے انبیاء کی طرف سے صفائی پیش کی ہے، انہیں کے امتیوں کے لگائے ہوئے داغ دھبے ان کی پاک سیرتوں سے دور کیے ہیں۔ اور یہ ناشکر گزار قومیں ہیں کہ الٹی قرآن ہی کی دشمنی پر تلی ہوئی ہیں !
356
۔ سحر نام ہے اسباب خفی (مثلا تاثیر کواکب، استعانت شیاطین الجن وغیرہ) سے کام لے کر تصرفات عجیب کرنے کا، خاص خاص مقشتوں اور ریاضتوں سے یہ فن حاصل ہوجاتا ہے، مشرک جاہل قوموں میں اس کا رواج پہلے بھی زور شور سے رہ چکا ہے۔ اب بھی ہے، شریعت اسلام نے اسے حرام قرار دیا۔ (آیت) ” یعلمون الناس، یعلمون “ کا فاعل شیاطین ہونا ظاہر ہی ہے۔ اکثر مفسرین نے اسی ایک ترکیب کو اختیار کیا ہے اور یہاں بھی ترجمہ اسی لحاظ سے کیا گیا۔ لیکن اس کی بھی گنجائش ہے کہ فاعل بجائے شیاطین کے یہود ہی کو قرار دیا جائے، یعنی (آیت) ” فریق من الذین اوتوا الکتب “ کو معنی اس صورت میں بجائے ماضی کے حال کے ہوجائیں گے۔ یعنی یہ یہود، لوگوں کو تعلیم دیتے رہتے ہیں سحر کی۔ سحر وکہانت تاریخ بنی اسرائیل کا ایک مسلم وناقابل انکار جزو ہے۔ خود عہد عتیق کے صحیفوں میں اس کی شہادت موجود ہے :۔ ” انہوں نے اپنے بیٹے بیٹی کو آگ کے درمیان گزارا اور فال گیری اور جادوگری کی۔۔ ان باعثوں سے خدا واند بنی اسرائیل پر نپٹ غصہ ہوا۔ اور اپنی نظر سے انہیں گرا کر دور کردیا “۔ (
2
۔ سلاطین۔
17
۔
18
)
357
۔ بیان انہیں یہود عرب کا چل رہا ہے۔ واؤ عاطفہ کبھی فقرہ کو فقرہ سے جوڑتا ہے، کبھی کبھی لفظ کو لفظ سے، اور کبھی فقرہ کو لفظ سے۔ یہاں فقرہ (آیت) ” وما انزل علی الملکین “ کا عطف ہے فقرہ ماقبل (آیت) ” ما تتلوا الشیطین “ پر اور دونوں فقرے تابع ہیں فعل (آیت) ” اتبعوا “ کے۔ گویا تقدیر کلام یوں ہے (آیت) ” واتبعوا ماتتلوا الشیطین “ الخ واتبعوا ماانزل علی الملکین۔ بعض نے (آیت) ” ما انزل الخ “ کا عطف السحر پر مانا ہے۔ عطف علی السحر وقیل ھو عطف علی ما تتلوا ماانزل (کشاف) معنی میں کوئی بڑا فرق اس سے بھی نہیں پڑتا۔ اور حاصل دونوں صورتوں میں ایک ہی رہتا ہے۔ قرآن جو کچھ بھی کہتا ہے حق مطلق کی شان بےنیازی کے ساتھ بالکل بےخوف اور بےدھڑک کہتا ہے۔ اسے کسی خارجی سہارے کی تلاش نہیں ہوتی۔ خارجی سہارے از خود اس کی طرف کھنچتے چلے آتے ہیں۔ اسے اپنی جگہ پر اطمینان کامل ہے کہ اس کے کسی بیان میں تردید کی گنجائش تو کجا، شک وتردد کا احتمال بھی کسی طالب حق کو نہیں ملے گا، یہود عرب کی طرف طویل فرد جرم اوپر سے مسلسل چلی آرہی ہے۔ ابھی ابھی دکر ان کے فلسطینی سحر کا آچکا ہے، (سلیمان نبی (علیہ السلام) بادشاہ فلسطین کے تھے، ان کے عہد کا سحر فلسطینی ہی کہا جائے گا) اب وہ بھی کہے ڈالتا ہے کہ یہ توحید کے پرانے امانت دار اور کتاب وسنت کے قدیم قدر شناس، یہی نہیں کہ عہد سلیمانی کے شیاطین جن وانس کی روایات سحروکہانت کا حق ادا کررہے ہیں، بلکہ اس فلسطینی سحر کے علاوہ بابل یا عراق کے بھی سحر کے انواع و اقسام میں ! تاریخ قدیم کے جاننے والوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ عہد رسالت وطلوع اسلام سے صدیوں قبل قوم بنی اسرائیل دو مستقل حصوں میں کاٹ چکی تھی، ایک ٹکڑا وہ جو بخت نصر کے ہاتھوں جلاوطنی یا جبری ہجرت کے بعد کلدانیہ یا بابل (موجودہ عراق) میں رہ پڑا تھا اور وہیں بس گیا تھا۔ دوسری شاخ وہ جو ایک مدت دراز کے بعد وہاں سے واپس آکر پھر فلسطین میں آباد ہوئی۔ آیت اس تاریخی حقیقت کو فاش کررہی ہے کہ عہد رسالت کے معاصر یہود عرب جامع ہیں فلسطینی اور بابلی دونوں قسم کے رذایل وخبائث کے، تاریخ قدیم کے یہ نازل دقائق، اور اپنی جگہ پر بالکل مسلم ومستند حقائق، جو عام طور پر اچھے اچھے اہل علم کے علم میں بھی نہیں، ادا کرائے جارہے ہیں۔ کسی مورخ اعظم کی زبان سے نہیں، عرب کے ایک امی کی زبان سے ! اللہ اللہ !
358
۔ (کسی خاص حکمت ومصلحت کے ماتحت) دو باتوں کا اس سلسلہ میں استحضار رہے تو انشاء اللہ آیت کی تفسیر میں کوئی الجھن ذہن میں پیدا نہیں ہونے پائے گی :۔ ایک یہ کہ نزل وانزال کا اطلاق صرف احکام تشریعی میں نہیں ہوتا، امور تکوینی میں بھی برابر ہوتا رہتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تکوینیات کے سلسلہ میں جو کام جیسا بھی لیا جاتا ہے، اس کے لیے واسطہ اور وسیلہ بہرحال فرشتے ہی ہوتے ہیں۔ اور یہ امر ان کے نزاہت ومعصومیت کے ذرا بھی منافی نہیں۔ (آیت) ” ماانزل “ میں ما موصولہ ہے الذی کے معنی ہیں۔ بعض نے ما کو نافیہ قرار دے کر (آیت) ” ماانزل کا عطف (آیت) ” ما کفر سلیمن “ پر کیا ہے۔ لیکن محققین نے اس کے قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور ابن جریر میں اس پر مفصل گفتگو موجود ہے ثم شرع ابن جریر فی رد ھذا القول وان ما بمعنی الذی واطال القول فی ذلک (ابن کثیر) ظاہرہ ان ماموصولۃ (بحر) عطف علی السحر اے یعلمونھم ما انزل علیھما (ابوسعود) الجمھور علی ان ما بمعنی الذی (مدارک) (آیت) ” انزل۔ اللہ کی طرف سے ” نازل “ صرف کتاب و حکمت، وحی والہام ہی نہیں ہوتا۔ قحط، بیماری، موت سب کا نزول وانزال بہ حیثیت مسبب الاسباب اللہ ہی کی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔ محاورۂ قرآنی میں انزال کا لفظ رزق (روزی) ماء (پانی) لباس (پوشاک) حدید (لوہے) انعام (چوپائے) کے سلسلہ میں صراحت کے ساتھ آیا ہے۔ یہاں تک کہ رجز (عذاب یا بلا) کے لیے بھی یہی لفظ صراحۃ مستعمل ہوا ہے۔ ؛ (آیت) ” انا منزلون علی اھل ھذہ القریۃ رجز امن السماء (عنکبوت۔ آیت
34
) سو جن لوگوں نے نزول سحر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی جانب کرنا اس کی قدروسیت کے منافی سمجھا وہ خود ایک بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے۔ ایک سحر ہی پر کیا موقوف ہے، کائنات میں تمام اچھا برا حق و باطل، ایمان وکفر، طاعت ومعصیت جو کچھ بھی موجود ہے سب کا وجود تکوینی حیثیت سے مسبب الاسباب ہی کے نازل کرنے سے تو ہوا ہے۔ انزل یہاں اپنے اسی وسیع معنی میں ہے۔ یعنی انہیں یہ بات بتادی گئی۔ ان کے دل میں یہ ڈال دیا گیا۔ کوئی اظہار شرف و تکریم مقصود نہیں، الانزال بمعنی التعلیم والالھام (معالم) الانزال اما علی ظاھرہ اوبمعنی القذف فی قلوبھما (روح) قلنا کل خیر اوشر اوطاعۃ اومعصیۃ او ایمان او کفر منزل من عنداللہ تعالیٰ (ابن عربی) انزل اے قذف فی قلوبھما مع النھی عن العمل (مدارک) الانزال بمعنی الخلق لا بمعنی لایحاء (ابن کثیر) الملکین۔ لفظ کی قرات مشہور ملک (بہ فتح لام) ہے۔ القراءۃ المشہورۃ بفتح اللام (کبیر) لیکن دوسری قرأت ملک (بہ کسر لام) کی بھی صحابہ وتابعین ہی کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، ابن عباس ؓ ضحاک، حسن بصری (رح) کی روایت ہے۔ قرأ الحسن بکسر اللام وھو مروی ایضا عن الضحاک وابن عباس ؓ (کبیر) چناچہ اسی دوسری قرأت کی بنا پر مفسرین اسی طرف چلے گئے ہیں کہ یہ دونوں اصلا فرشتے نہ تھے، بشر تھے اور بادشاہ، اور انہیں جو دوسری روایتوں میں فرشتے کہا گیا ہے، تو وہ محض مجازا ہے، یعنی ان کے صفات ملکوتی کی بنا پر۔ قیل رجلان سمیا ملکین باعتبار صلاحھما (بیضاوی) لیکن جمہور کا قول وہی قرأت مشہور کی بنا پر ان کے فرشتہ ہونے کا ہے۔ ذھب کثیر من السلف الی انھما کان ملکین من السماء وانھما انزلا الی الارض (ابن کثیر) اور نظام تکوینی میں فرشتوں کے اوپر حقیقت سحر کا نزول ان کی نزاہت کے ذرا بھی منافی نہیں۔ خصوصا جب کہ ان پر اس فن کے الہام کیے جانے سے مقصود ہی تمام تراصلاح خلق تھا۔ یعنی لوگوں کو سحروکہانت سے بچانا، نہ کہ اس پر آمادہ کرنا۔ مجسٹریٹوں کو، پولیس کے افسروں کو، جرائم سے عملی واقفیت حاصل کرتے کس نے نہیں دیکھا ہے ؟ ظاہر ہے یہ اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ خود کوئی جرم کریں، بلکہ اس لیے کہ اپنی عملی واقفیت کو مجرموں کے ارتکاب جرم سے باز رکھنے میں کام میں لائیں۔ بابل۔ بابل جس قدیم ملک کا نام ہے۔ وہ موجودہ نقشہ اور جغرافیہ میں عراق عرب کہلاتا ہے۔ ملک کے پایہ تخت کا بھی یہی نام تھا۔ شہر بابل دریائے فرات کے کنارے واقع تھا۔ موجودہ بغداد سے کوئی
60
میل سمت جنوب میں۔ تقریبا وہیں جہاں آج ہلہ کی آبادی ہے، شہربہت بڑا تھا۔ رقبہ میلوں کا تھا۔ ملک اپنے عروج کے زمانہ میں بڑا سرسبز، شاداب، خوشحال، مہذب ومتمدن رہ چکا ہے، نہروں، پانی کے نلوں، شاہی قصروایوان، زبردست قلعوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ ان سے اتنا تو بہرحال ثابت ہوجاتا ہے کہ ملک میں ماہر فن انجینروں کی کمی نہ تھی، دجلہ وفرات دو دو مشہور دریا اس کے علاقہ کو سیراب کررہے تھے۔ سلطنت کے عروج کا زمانہ تخمینی طور پر
3000
ق، م سمجھا گیا ہے۔ ملک کی ایک خاص شہرت علوم سحر، عملیات سفلی اور جنتر منتر کے لحاظ سے تھی، جنہیں آج انگریزی میں Occult Scienis (علم نیز نجات) کہتے ہیں۔ اسی ملک کا ایک دوسرا قدیم نام کا لڈیا (کلدانیہ) ہے اور انگریزی میں آج تک لفظ کا لڈین (کلدانی) ساحر کا مرادف چلا آرہا ہے، یہودونصاری کے صحیفوں میں اس ملک کا ذکر کثرت سے آیا ہے۔ ذکر اس ملک کی عظمت کا بھی اور اس کی بدعملیوں، تباہ کاریوں کا بھی۔ ملاحظہ ہو صحیفہ دانی ایل
4
:
3
۔ مکاشفہ
10
:
5
،
18
:
30
وغیرہا۔ لیکن اس فہرست جرائم کا عنوان اول سحرکاری تھا۔ بائبل کی شہادت ملاحظہ ہو :۔ ” تیرے سوداگر زمین کے امیر تھے، تیری جادوگری سے زمین کی ساری قومیں گمراہ ہوگئیں۔ اور نبیوں اور مقدسوں اور زمین کے اور سب مقتولوں کا خون اس میں بہایا گیا۔ “ (مکاشفہ۔
18
:
23
،
24
) پرانے کتبے اور نوشتے آج جو کچھ دریافت ہوئے ہیں، ان کی متفقہ شہادت ہے کہ دین بابلی کا جزواعظم سحروکہانت، جنترمنتر ٹونے ٹوٹکے تھے۔ ” بابلی مذہب کا جزواعظم سحروکہانت کیا انواع و اقسام ہیں۔ بابلی مذہب کی کتابوں کو اٹھا کر دیکھئے تو ہر طرف کہانت کے منتر ہی منتر نظر آئیں گے “۔ (انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس، جلد
2
صفحہ
1
16
) ایک اور فاضل کی تحقیق ہے :۔ ” مذہب بابل ونینوا کا جزواعظم بھوت پریت کا اتارنا جھاڑنا تھا۔ “ (راجرس کی ریلیجن آف بابیلونیا اینڈ اسیر یا، صفحہ
145
) یہ سحر پیشہ وکہانت دوست قوم جب
538
ق، م میں تاجدار ایران کے ہاتھوں برباد ومنتشر ہوئی، تو جہاں جہاں گئی اپنے ساتھ اپنے فنون سحروکہانت کو بھی لیتی گئی، تاریخ کا بیان ہے :۔” یہ لوگ جہاں جہاں گئے اپنے ان علوم کو اپنے ساتھ لیتے گئے، ان کی تعلیم دیتے رہے۔ اور ضعیف العقیدہ خلقت انہیں ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیتی رہی۔ (ریگوزین کی کا لڈیا صفحہ
255
) یہود ان استادوں کے شاگرد رشید ثابت ہوئے :۔ ” بابل کے میل جول نے اسرائیلیوں کے عقائد متعلق ملائکہ و شیاطین کو متاثر کرنا شروع کیا “۔ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا۔ جلد
13
۔ صفحہ
187
، طبع یازدہم) خود یہود کے اکابر کا اعتراف ہے کہ :۔ ” بابل کا مذہبی احترام ہر خطہ کے یہود میں قائم رہا “۔ (جیوش انسائیکلوپیڈیا۔ جلد
6
۔ صحفہ
4
13
) ہمارے قدیم مفسرین کی تربیتیں اللہ ٹھنڈی رکھے۔ بغیر اس کے کہ انکے کان میں بھنک بھی آوازوں کی پڑے کہ انیسویں صدی کے آخر میں سرہنری رالنس کو، اور بیسویں صدی میں سرلیونارڈولی اور دوسرے ماہرین اثریات کو بابل کے کھنڈروں میں کیسے کیسے کتبے عملیات اور نقوش سے لبریز مل گئے۔ محض اپنی قوت ایمانی کی بخشی ہوئی جلاء واشراقیت سے کام لے کر، (آیت) ” ماانزل علی الملکین “ کا عطف (آیت) ” ماتتلوا الشیطین “ پر کرکے اس تاریخی حقیقت کو صاف اور بےنقاب کرگئے کہ یہود کی فرد جرم دونوں جرموں سے سیاہ ہے۔ اتباع سحر فلسطین سے بھی اور اتباع سحربابل سے بھی، خود قرآن کا اعجاز تو خیر بہت بڑی چیز ہے، حق یہ ہے کہ قرآن والوں کا اعجاز بھی اپنی جگہ دلوں کو ہلادینے کے لیے بالکل کافی ہے۔ بابل کی اسی سحر پر وروکہانت خیز سرزمین میں جب عملیات سفلیہ اور علوم سحریہ کا زور حد سے بڑھ گیا، اور عوام کے ذہن میں ہادیان حق انبیاء کرام اور اولیائے صالحین کی حیثیت خلط ملط اور ملتبس ہو کر کاہنوں، ساحروں، عاملوں، شعبدہ بازوں کی ہو کر رہ گئی، تو مشیت الہی اور حکمت ربانی نے حق و باطل کے ان دو فرشتوں کو انسانی صورت و قالب میں بھیجا (آیت) ” ھاروت وماروت “ یہ نام ہیں ان دونوں فرشتوں کے۔ دونوں اپنی اصلی حقیقت کے لحاظ سے فرشتے تھے، لیکن جب ایک غرض خاص کے ساتھ انسانوں کے درمیان رہنے بسنے کیلیے بھیجے گئے تھے، تو ظاہر ہے کہ ان کی شکل وشباہت، رنگ وروپ، جسم و قالب انسانوں ہی کا ہوگا، اور ان کی عادتیں اور ان کے جذبات بھی بالکل بشری ہوں گے۔ بعض اہل تفسیر نے یہاں ایک قصہ یہود کا بیان کیا ہوا، ملک عراق کی مشہور رقاصہ اور بیسوازہرہ کا نقل کیا ہے۔ لیکن اول تو آیت کی تفسیر اس قصہ پر موقوف کسی درجہ میں بھی نہیں۔ دوسرے خود محدثین اور محققین تفسیر نے اس کی صحت سے بالکل انکار کردیا ہے۔ اور صاف لکھ دیا ہے کہ قصہ بالکل گڑھا ہوا اور لغومردود ہے۔ اور اس گروہ میں قاضی عیاض، امام رازی، شہاب الدین عراقی وغیرہم شامل ہیں۔ اعلم ان ھذہ الروایۃ فاسدۃ مردودۃ غیر مقبولۃ (کبیر) وھذا کلہ لایصح منہ شیء (بحر) ونص الشھاب العراقی علی ان من اعتقد فی ھاروت وماروت انھما ملکان یعذبان علی خطیھما مع الزھرۃ فھو کافر باللہ تعالیٰ (روح) لیکن بالفرض صحیح ہو بھی، تو جب کسی خاص مصلحت سے کسی فرشتہ کو پیکر انسانی اور جذبات بشری دے دیئے گئے، تو اگر کسی وقت وہ ملکوتی الاصل انسان بشری جذبات سے مغلوب بھی ہوجائے، تو اس میں کوئی استحالہ نہ شرعی ہے نہ عقلی۔
359
۔ (آیت) ” یعلمن “ تعلیم کے متعارف مفہوم کی بنا پر اس لفظ سے یہ شبہ نہ ہو کہ ملائکہ سحر کا درس یا سبق دیا کرتے تھے۔ استغفر اللہ۔ تعلیم کے معنی علاوہ سکھانے اور سبق دینے کے، اعلام یعنی جتلانے، بتلانے، آگاہ کرنے کے بھی آتے ہیں۔ والتعلیم ربما یستعمل فی معنی الاعلام (راغب) چناچہ ماہرین قرآن کی ایک جماعت نے یہاں بھی یہی معنی لیے ہیں۔ والتعلیم بمعنی الاعلام (معالم) فکان المعنی فی یعلمان یعلمان (بحر) التعلیم انما ھو تعریف یسیر بمبادۂ (بحر) اور خود ایک قرأۃ بھی مصدر اعلام کے ساتھ منقول ہے۔ وقراطلحۃ من مصرف یعلمان بالتخفیف میں الاعلام (روح) من احد میں من زائد ہے، تاکید استغراق کے لیے۔ معنی ہوں گے ” کسی کو بھی “ ‘ یا ” کسی ایک کو بھی “ من زائد لتا کید استغراق الجنس (بحر)
360
۔ (یہ نظر احتیاط مزید) ملائکہ اس باب میں اتنی احتیاط رکھتے کہ خیرخود سے تو کسی کو کیا بتلاتے، سکھلاتے، جو لوگ پوچھنے آتے، انہیں بھی پہلے متنبہ کردیتے۔ حتی ینصحاہ اولا (معالم) حتی یتنبھاہ وینصحاہ (مدارک) لا یعلماہ حتی یبالغا فی نھیہ (جصاص)
361
۔ امتحان یعنی وہ چیز جس سے کھل جائے کہ سحر وکہانت سے بچا کون کون رہا اور مبتلا ان میں کون کون ہوگیا۔ (آیت) ” فتنۃ کے معنی امتحان، آزمائش جانچ پڑتال کے ہیں تارۃ یستعمل فی الاختیار (راغب) اور یہاں بھی آزمائش ہی مراد ہے۔ ومعناھا فی ھذا الموضع الاختیار والابتلاء (ابن جریر، عن ابن جریج) اے ابتلا واختیار من اللہ (کشاف) مطلب یہ ہوا کہ یہ انسان نما ملائکہ کیس پر بھی حقیقت سحر کو نہ کھولتے، کسی کو بھی کلمات سحر پر مطلع نہ کرتے جب تک کہ اسے متنبہ نہ کردیتے۔ ہوتا یہ تھا کہ فسق پیشہ لوگ آکر ہاروت وماروت کو گھیرتے اور ان سے اصرار کرکے دریافت کرتے کہ آپ ہمیں سحر سے روک تو رہے ہیں، لیکن یہ تو بتائیے کہ سحر کہتے کسے ہیں۔ وہ ہیں کون سے اعمال واقوال جن پر سحر کا اطلاق ہوتا ہے ؟ فرشتے انہیں اس تنبیہ ویاد دہانی کے بعد کہ اس فن سے کام لینا کفر ہے، جب انہیں آگاہ وخبردار کرنے کے لیے ان اعمال واقوال کی نقل وحکایت ان کے سامنے کرتے تو وہ فسق پیشہ لوگ اس سے فائدہ یہ اٹھاتے کہ خود اس فن ہی کے سیکھ جانے کا کام لینے لگتے۔ بالکل ایسی ہی بات جیسے آج کوئی کسی فقیہ عالم سے یہ دریافت کرے کہ رشوت اور سود کا اطلاق کن کن آمدنیوں پر ہوتا ہے اور پھر ان سے بچنے کے بجائے الٹا انہیں طریقوں پر عمل شروع کردے ! یہ مفہوم طبع زاد نہیں۔ حضرت علی ؓ سے ایک اثر ٹھیک اسی معنی میں مروی ہے۔ قال علی کانا یعلمان تعلیم اندار لا تعلیم دعاء الیہ کانھما یقولون لاتفعل کذا کما لوسال سائل عن صفۃ الزنا اوالقتل فاخبر بصفتہ لیجتبہ (بحر)
362
(ان اعمال واقوال سحر کو اختیار کرکے) اے لا تجعل ما تسمع منا سببا للکفر کے مرادف ہے۔ اے لا تکفر بعمل ھذا السحر واعتقادہ فثبت ان ذلک کفر اذا عمل بہ واعتقدہ (جصاص) اس میں فقہائے امت کا اختلاف شروع سے چلا آرہا ہے، کہ آیا مطلق سحر یعنی اس کا سیکھنا بھی حرام ہے یا محض اس پر عمل۔ شروع سے قول دونوں قسم کے ملتے ہیں بعض نے تعلم کو بالکل جائز رکھا ہے اور صرف عمل کو حرام قرار دیا ہے اور بعض نے نفس تعلم کو بھی۔ قیل فلا تفعلہ لتعمل بہ وھذا علی قول من قال تعلمہ جائز والعمل بہ کفر وقیل لا تکفر بتعلیم السحر وھذا علی قول من قال ان تعلمہ کفر (بحر) بعض نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ سحر کا سیکھنا بہرصورت حرام ہے یہاں تک کہ کافر ساحروں کے رد کے لیے سیکھا جائے جب بھی حرام ہے۔ اس لیے کہ کلام الہی (آیت) ” فلاتکفر “ دلالت کرتا ہے مفہوم کی علی الاطلاق حرمت پر، اور وہ سحر ہے (ردالمحتار) لیکن یہ تحقیق خود حنفیہ کے ہاں بھی متفق علیہ نہیں، اور شافعیہ کو تو اس سے بالکل اختلاف ہے۔ فلاتکفر باعتقاد جو ازہ والعمل بہ وفیہ دلیل علی ان تعلم السحر وما لا یجوز اتباعہ غیر محظور وانما المنع من تکفر بتعلمہ والعمل بہ علی وجہ یکون کفرا (مدارک) مفسر تھانوی کی تحقیق اس موقع پر بھی قابل قدر ہے :۔ ” سحر کے فسق یا کفر وغیرہ ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس میں کلمات کفریہ ہوں مثل استعانت شیاطین وکواکب وغیرہ۔ تب تو کفر ہے خواہ اس سے کسی کو ضرر پہنچایا جائے، یا کسی اور غرض ناجائز میں استعمال کیا جائے تو وہ فسق ومعصیت ہے۔ اور اگر ضرر نہ پہنچایا جائے، نہ کسی اور غرض ناجائز میں استعمال کیا جائے تو اسے عرف میں سحر نہیں کہتے بلکہ عمل یا عزیمت یا تعویذ گنڈہ کہتے ہیں اور وہ مباح ہے۔ اور اگر کلمات مفہوم نہ ہوں تو بروجہ احتمال کفر ہونے کے واجب الاحتراز ہے۔ اور کفر عملی کا اطلاق ہر ناجائز پر صحیح ہے۔ “
363
۔ یعنی وہ فسق پیشہ اور معصیت دوست لوگ سحر سیکھ ہی جاتے۔ ملائکہ کی نیت کا بخیر ہونا بالکل ظاہر ہے۔ وہ تو نفس مسئلہ سمجھاتے، سحر کی حقیقت بیان کرتے، اس کی حرمت کا حکم صادر کرتے، لیکن فاسد الطبع لوگ اس سے فن سیکھ جاتے۔ اور اسے کام میں لانے لگتے۔
364
۔ ذکر ایکبار پھر حافظہ کو تازہ کرلیجئے، یہود کا چل رہا ہے۔ یہود عہد سلیمانی کا، نیز انکی اولاددر اولاد کا۔ قرآن، ایک امی کا لایا ہوا قرآن، ان کی فرد جرم سناتے سناتے یک بیک یہ بھی کہہ ڈالتا ہے کہ یہود سحر اور عملیات سفلی میں تو مشغول رہتے ہی تھے، لیکن ان میں بھی خصوصا ان عملیات میں جن کا تعلق میاں بیوی کے افتراق سے تھا۔ قرآن نے تو ضمنا اور گویا بالکل لپیٹ میں ایک بات کہہ دی۔ اب دیکھئے بیسویں صدی کے علمائے یہود اور محققین اسرائیلی اپنے اسلاف کے مشغلہ سحروساحری کی نوعیت سے متعلق کیا شہادت دیتے ہیں۔ ” سح رکی سب سے زیادہ عام متداول صورت اس نقش کی تھی جو عشق و محبت کے لیے دیا جاتا تھا۔ خاص کر وہ نقش جو ناجائز آشنائیوں کے لیے لکھا جاتا تھا۔ اس قسم کے سحر کی ماہر عورتیں ہی زیادہ ہوتی تھیں، چناچہ ذکر بھی سحر اور حرامکاری کا عموما ساتھ ہی ساتھ آیا ہے “ (جیوش انسائیکلوپیڈیا، جلد
8
صفحہ
255
)
365
۔ یعنی بجز مشیت تکوینی کے۔ اسلام نے شرک کی جڑ جس جس طرح کاٹی ہے، اس کے لحاظ سے یہ صراحت ضروری بھی تھی، ارشاد ہورہا ہے کہ کہیں مؤثر حقیقی ان عملیات سحریہ کو، اس منتر جنتر کو، ان ٹونے ٹوٹکوں کو ہرگز نہ سمجھ لینا، ان میں قوت ذرا سی بھی نہ تھی۔ مؤثر وفاعل حقیقی جس طرح ہر حال میں ہماری مشیت، صرف ہماری تجلی ارادی تکوینی رہتی ہے۔ اس موقع پر بھی صرف وہی رہی۔ اذن اللہ کے معنی یہاں تقدیر الہی، مشیت تکوینی، قضاوقدر کے ہیں۔ معناہ الا بقضاۂ وقدرتہ ومشیتہ (معالم۔ عن سفیان ثوری) اے بعلمہ تکوینیۃ فالساحر یسحر واللہ یکون (معالم) اے بعلمہ ومشیتہ (مدارک) یعنی بحکمہ وقضاۂ لابامرہ (ابن عربی) بس اتنا یاد رہے کہ یہ اللہ کی قدرت، مشیت، حکمت تکوینی ہرگز ہرگز اللہ کے حکم یا رضا کے مرادف نہیں۔ زہر کے اثر سے بےگناہوں کی ہلاکت، کافروں کے ہاتھوں اولیاء وانبیاء کی اہانت واذیت، مشرکوں کا مسلمانوں پر غلبہ و تسلط، جس قانون حکمت تکوینی کے مطابق یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے، اسی کے ماتحت سحر بھی اپنا اثر دکھاتا ہے اور رضائے الہی سے بعد جس قدر غلبہ کفر وغیرہ کو ہے، اسی قدر تاثیر سحر کو، ہر ہر ارادہ الہی کے اندر کتنی کتنی تکوینی حکمتیں اور کائناتی مصلحتیں ہوتی ہیں، اس کا علم بھی بجز اسی دانا وبینا، علیم وخبیر کے اور کسی کو نہیں ہوسکتا۔
366
۔ (جیسا کہ ہر معصیت کا قاعدہ ہے کہ اس کی تحصیل مضر اور غیر مفید ہی ہوا کرتی ہے) یعنی یہ بدبخت یہود اپنا وقت اور اپنی قوتیں کیسی ضائع کررہے ہیں، ان علوم وفنون کی تحصیل میں جو ان کے حق میں نافع تو ذرا سے بھی نہیں اور مضرہی ہیں۔ ضمنا اس سے علوم سحریہ کے سیکھنے کی ممانعت بھی نکل آئی، جیسے ان علوم عقلیہ وفلسفیہ سے جو گمراہی کی طرف لے جائیں۔ فیہ دلیل علی انہ واجب الاجتناب کتعلم الفلسفۃ التی تجر علی الغوایۃ (مدارک)
367
۔ (خود اپنے مذہبی نوشتوں کی تصریحات سے) اشارہ عہد رسالت کے یہود کی جانب ہے۔ یہ کلام متعلق ہے آیہ ماقبل (آیت) ” لما جآء ھم رسول الخ “ سے۔ یہود عہد سلیمانی اور ان کی ساحری کا قصہ درمیان میں آگیا تھا۔ اب رجوع پھر اسی پہلے تذکرہ کی جانب ہے۔ یعنی یہود معاصرین عہد رسول سے متعلق۔ متعلق بقولہ تعالیٰ (آیت) ” ولما جآء ھم “ وقصۃ السحر مستطردۃ فی البین فالضمیر لاولئک الیھود (روح) قرآن نے کس دعوی سے کہہ دیا، کہ (لقد علموا) یہ یہود ہی خوب جانتے ہیں کہ سحروساحری کیسی گندی چیز ہے۔ یہود کہہ سکتے تھے کہ ہم کہاں جانتے ہیں ؟ کس نے ہمیں یہ خبر دی ہے ؟ ہمارے مقدس نوشتوں میں کہاں یہ موجود ہے ؟ مگر نہ کہہ سکے۔ اس لیے کہ آج کی تحریف شدہ، مسخ شدہ توریت تک میں یہ تصریحات باقی ہیں :۔ ” توجادوگری کو بسنے مت دے “۔ (خروج۔
22
:
18
) ” اور جادونہ کرو، اور ساعتوں پر لحاظ مت کرو۔ “ (احبار
19
:
26
) ” اور نہ رمال وساحر ہو کیوں کہ وہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں، خداوند کی نفرت کے باعث ہیں ، “ (استثناء۔
18
:
12
)
368
۔ (آیت) ” اشترہ۔ ضمیر سحر کی طرف ہے۔ اے اختار السحر (معالم) اے استبدل ماتتلوا الشیطین بکتاب اللہ واستبدل السحر بدین اللہ (جصاص) یہود کو دعوت حق دی جارہی تھی، پیام ان کے پاس مذہب توحید کا پہنچ رہا تھا۔ اور وہ تھے کہ ادھر سے غافل وبے پروا، فارغ وغیر متوجہ، اپنے انہیں علوم سحر وکہانت میں لگے ہوئے اور انہیں خرافات کو کمال کے درجہ میں رکھے ہوئے تھے، اشارہ ان کی اسی محرومی وبدنصیبی کی جانب ہے،
369
” اپنے آپ کو بیچ ڈالا “ یعنی اپنی جان کو عذاب وہلاکت میں ڈالا۔ بئسما شروابہ۔ وہ بری چیز کفر و اعمال سحریہ ہیں جن کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ بندوں کے حال پر کمال شفقت سے تاسف و حسرت کے لہجہ میں ارشاد ہورہا ہے کہ دین برحق جیسی نعمت سے منہ موڑے ہوئے یہ کفر وسحر اختیار کیے ہوئے ہیں، گویا دوزخ کی خریداری کرچکے ہیں۔ حیث اختاروا السحر والکفر علی الدین والحق (معالم)
370
۔ یعنی افسوس کہ اس حد تک بھی انہوں نے اللہ کی دی ہوئی عقل سلیم سے کام نہ لیا !
Top