Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
اے ایمان والو ” راعنا “ مت کہا کرو،372 ۔ اور ” انظرنا “ کہا کرو اور سنتے رہا کرو،373 ۔ اور کافروں کے لئے عذاب دردناک ہے،374 ۔
372 ۔ (مجمع میں رسول اللہ کو مخاطب ومتوجہ کرتے وقت) رسول اللہ ﷺ جب مجمع میں قرآن مجید سناتے یاتبلیغ کرتے ہوتے اور لوگ کوئی بات سن نہ پاتے تو قدرۃ دوبارہ آپ کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتے۔ یہود نے ایسے موقع کے لیے ازراہ شرارت لفظ (آیت) ” راعنا “ استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ اس کے اصل معنی تو صرف اس قدر ہیں کہ ” ہماری رعایت کیجئے “ لیکن (آیت) ” راعنا “ کے ” ع “ کو ذرا کھینچ کر پڑھنے سے اس کے معنی میں ایک گستاخانہ مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ مسلمان اس شرارت سے غافل، بیخبر ، خالی الذہن، خود بھی بعض اوقات یہ لفظ بولنے لگتے۔ یہاں انہیں کو یہ ممانعت ہورہی ہے۔ (آیت) ” انظرنا “ کے معنی ہیں ” ہمارے اوپر نظر کیجئے “۔ اور یہ پہلوئے ذم سے خالی ہے۔ آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مرتبہ رسالت کا ادب صرف معنوی ہی حیثیت سے نہیں، لفظی حیثیت سے بھی ضروری ہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ جن الفاظ سے احتمال بھی اہانت کا نکلتا ہے، ان سے احتیاط لازم ہے۔ وھذا دلیل علی تجنب الالفاظ المحتملۃ التی فیھا التعرض للتنقیص (ابن عربی) بلکہ امام مالک (رح) کے ہاں تو ایسے الفاظ پر حد واجب ہوجاتی ہے۔ فقہاء حنفیہ نے جو اپنی باریک بینی کے لیے سب سے ممتاز ہیں، یہیں سے یہ مسئلہ بھی نکالا ہے کہ اس بحث کا فیصلہ کہ فلاں مقام پر مراد امر خیر ہے یا شر، واضع کی نیت کے لحاظ سے ہوگا، تابع کی رائے سے نہیں۔ صحابہ کرام ؓ ظاہر ہے کہ سوء ادب کے قصد سے بالکل بری تھے، ممانعت جو کی گئی، وہ یہود کی نیت پر حکم کرکے، 373 ۔ (رسول اللہ ﷺ کے ارشادات، ادب وتعظیم کے ساتھ) حال کے بعض گمراہ فرقوں نے ایمان واسلام کے لیے رسول اللہ ﷺ کی شخصیت سے بالکل قطع نظر کرکے محض قرآن کی اتباع کو کافی سمجھ لیا ہے، ان کی گمراہی آیت سے ظاہر ہے۔ 374 ۔ (پیغمبر برحق کی توہین اور اپنی دناءت اخلاق کی پاداش میں) خصوصا ان کافروں کے لیے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شدت بعض وعداوت میں اس حد تک پہنچ جائیں، اور عام انسانیت وتہذیب کے بھی حدود کا لحاظ نہ رکھیں۔ اسیے بدتمیز معاندین کی اصلاح کی توقع بھی کیا ہوسکتی تھی۔
Top