Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 105
مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
مَا يَوَدُّ : نہیں چاہتے الَّذِیْنَ کَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ : اہل کتاب میں سے وَلَا : اور نہ الْمُشْرِكِیْنَ : مشرکین اَنْ : کہ يُنَزَّلَ : نازل کی جائے عَلَيْكُمْ : تم پر مِنْ خَيْرٍ : کوئی بھلائی مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب وَاللّٰہُ : اور اللہ يَخْتَصُّ : خاص کرلیتا ہے بِرَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت سے مَنْ يَشَاءُ : جسے چاہتا ہے وَاللّٰہُ : اور اللہ ذُوْ الْفَضْلِ : فضل والا الْعَظِیْمِ : بڑا
جو لوگ کافر ہیں (خواہ) اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے،375 ۔ وہ اسے (ذرا بھی) پسند نہیں کرتے کہ تمہارے اوپر کوئی بھی بھلائی تمہارے پروردگار کی طرف سے اتر کر رہے،376 حالانکہ اللہ اپنی رحمت سے جسے چاہے مخصوص کرلے،377 اور وہ بڑے ہی فضل والا ہے،378 ۔
375 ۔ (آیت) ” الذین کفروا “۔ کافروں یعنی طریق اسلام کے منکروں کی بڑی قسمیں دو ہیں۔ ایک مشرک جو سرے سے توحید، رسالت، ملائکہ وجنات ہی کے قائل نہیں۔ بلکہ ان کے بجائے عجب عجب تخیلات اور ادہام گڑھ رکھے ہیں۔ دوسرے اہل کتاب جو ان بنیادی حقائق پر لفظ ایمان رکھتے ہیں، لیکن عملا ومعنا ان میں سے ہر حقیقت کو مسخ کرچکے ہیں، یہاں جملہ میں آگے جو خبر نکلے گی، اس کا مبتدا بھی (آیت) ” الذین کفروا “ ہے۔ مزید صراحت کے لیے اس کی دونوں قسموں کو بھی کھول کر بیان کردیا جائے، (آیت) ” اھل الکتب “ یہ لفظ قرآن مجید میں پہلی بار آیا ہے۔ قرآنی اصطلاح میں یہ لفظ مومینن اور مشرکین کا درمیانی درجہ رکھتا ہے۔ اور اس کا اطلاق یہود ونصاری پر ہوتا ہے۔ جو اصلاتوحید ونبوت ومعاد کے قائل تھے، اور آسمانی صحیفے بھی اپنے پاس رکھتے تھے، گومعنوی اور لفظی تحریفات کے لحاظ سے بالکل مسخ شدہ اور قرآن اور صاحب قرآن کے منکر تھے (آیت) ” المشرکین “ مشرک وہ تھے، جو سرے سے توحید ونبوت ہی کے قائل نہ تھے، بجائے ایک خدائے واحد کے مختلف فرشتوں کو مختلف قوی کا مستقل مالک و متصرف سمجھتے تھے، ان کو دیویوں، دیوتاؤں کے نام سے پکارتے، اور انہیں کی پرستش کرتے، اور مختلف عناصر اور مظاہر فطرت کی بھی الوہیت کے قائل رہتے، حیرت اور افسوس ہے کہ انگریزی کے تقریبا کل مترجمین قرآن اور اردو کے بھی متعدد شارحین نے شاید افراط ” روشن خیالی “ کے اثر سے ترکیب عبارت کو بالکل نظر انداز کرکے ترجمہ یوں کردیا ہے :۔ اہل کتاب میں سے جو کافر ہیں وہ اور مشرکین (ذرا بھی) پسند نہیں کرتے “ حالانکہ یہ ترجمہ کسی طرح بھی صحیح نہیں ہوسکتا۔ اول تو (آیت) ” اھل الکتب “ کا مفہوم ہی کافر اہل کتاب کا ہے۔ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو اہل کتاب کہے ہی کیوں جائیں ؟ مومن ہی نہ کہلانے لگیں، اس لیے یہ کہنا کہ ان میں سے جو کافر ہیں، خود ہی بےمعنی ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر صریح اور قاطع (آیت) ” المشرکین “ کا اعراب ہے۔ (آیت) ” المشرکین “ حالت جری میں ہے۔ اور من حڑف جار کا مجرور۔ اس کا عطف صریحا (آیت) ” اھل الکتب “ پر ہے۔ اگر (آیت) ” الذین کفروا “ پر ہوتا تو حالت رفعی میں ہوتا۔ اور بجائے (آیت) ” المشرکین “ کے المشرکون ہوتا۔ ایک حدیث میں کافروں کی یہ دو گونہ تقسیم اہل کتاب ومشرکین میں صراحت کرکے دونون کے حق میں عذاب کی دعا آئی ہے :۔ اللہم عذب الکفرۃ اھل التب والمشرکین الذین یجحدون ایاتک ویکذبون رسلک ویصدون عن سبیلک ویتعدون حدودک ویدعون معک الھا اخر لا الہ الا انت تبارک وتعالیت عما یقول الضلمون علواکبیر۔ 376: (اے مسلمانو ! ) مطلب یہ ہے کہ کافروں کو تو چاہے مطلب یہ ہے کہ کافروں کو تو چاہے وہ اہل کتاب ہوں یا مشرک یہ کسی طرح گوارا ہی نہیں، بلکہ دل سے شاق گزر رہا ہے کہ خیر و رحمت کا نزول مسلمانوں پر ہو۔ الخیر، خیر سے مراد عموما وحی ونبوت لی گئی ہے۔ الخیر الوحی (کبیر) فسر الخیر بالوحی (بیضاوی) لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے ہر قسم کی فلاح دنیوی واخروی کا جامع سمجھا جائے اور اس کے تحت میں علم، نصرت غیبی، فتوحات ملکی وغیرہ سب کو شامل کرلیا جائے۔ اے بالعلم وبالنصرۃ ولعل المراد بہ ما یعم ذلک (بیضاوی) ھنا عام فی جمیع انواع الخیر (بحر) عام فی انواع الخیر کلھا (روح) 377 ۔ (اپنے قانون حکمت ومصالح تکوینی کے ماتحت) یہود کو اصل حسد اس کا تھا کہ نعمت نبوت کے حقدار تو ہم ہیں یعنی اولاد اسرائیل۔ یہ اہل عرب کو کہ بنی اسماعیل ہیں، یہ دولت نبوت کہاں سے ملی جاتی ہے اور کیسے مل سکتی ہے ؟ اور (آیت) ” اھل الکتب “ سے اشارہ زیادہ تر انہیں کی طرف ہے۔ اور الحمد للہ کہ ہمارے قدیم مفسرین نے بھی آیت کو اسی مفہوم میں لیا ہے۔ معنی الایۃ ان اللہ تعالیٰ بعث الانبیاء من ولد اسحاق فلما بعث النبی ﷺ من ولد اسمعیل، لم یقع ذلک بود الیھود (معالم) 378 ۔ (وہ جس فرد، جس نسل، جماعت کو چاہے اپنے فضل وکرم سے نواز دے) اور اب اگر کسی قوم یا نسل کو محروم کیا جارہا ہے تو اس کی بنا یہ نہیں کہ ادھر سے فضل وکرم میں کچھ کمی ہوگئی ہے بلکہ یہ اس لیے ہے کہ خود اس قوم نے اپنی مسلسل نالائق روش سے اپنے کو اس فضل وکرم کا نااہل ثابت کردیا، اور اب اسے اس نعمت سے نوازے جانا آئین حکمت کے منافی ہے۔
Top