Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 158
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا١ؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الصَّفَا : صفا وَالْمَرْوَةَ : اور مروۃ مِنْ : سے شَعَآئِرِ : نشانات اللّٰهِ : اللہ فَمَنْ : پس جو حَجَّ : حج کرے الْبَيْتَ : خانہ کعبہ اَوِ : یا اعْتَمَرَ : عمرہ کرے فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں کوئی حرج عَلَيْهِ : اس پر اَنْ : کہ يَّطَّوَّفَ : وہ طواف کرے بِهِمَا : ان دونوں وَمَنْ : اور جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَاكِرٌ : قدر دان عَلِيْمٌ : جاننے والا
صفاومروہ بیشک اللہ کی یادگاروں میں سے ہیں،573 ۔ سو جو کوئی بیت (اللہ) کا حج کرے یا عمرہ کرے،574 ۔ اس پر (ذرا بھی) گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمد ورفت کرے،575 ۔ اور جو کوئی خوشی سے کوئی امر خیر کرے، سو اللہ تو بڑا قدر دان ہے، بڑا علم رکھنے والا ہے، 576 ۔
573 ۔ (نہ کہ دیوی دیوتاؤں کی یادگاروں میں سے) صفاومروہ کسی زمانہ میں مسجد الحرام کے پاس دو پہاڑیاں تھیں۔ اب معمولی بلندیاں محض چٹان کی سی رہ گئی ہیں۔ صفا حرم شریف کی داہنی جانب ہے اور مروہ بائیں جانب۔ دونوں کے درمیان فاصلہ 493 قدم کا ہے، یا تقریبا 7 فرلانگ۔ صفا کے لغوی معنی صاف پتھر یا خالص چٹان کے ہیں اور مروہ کے بھی لفظی معنی سفید نرم پتھر کے ہیں۔ الصفا الحجارۃ الصافیۃ (راغب) قال المبرد وھو کل حجر لا یخالطہ غیرہ من طین اوتراب (روح) المروۃ فی الاصل الحجر الابیض (روح) حدیث صحیح میں یہ مضمون آیا ہے کہ حضرت ہاجرہ (علیہ السلام) حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کو شیر خوارگی کے زمانہ میں خانہ کعبہ کے پاس پیاسا اور تنہا چھوڑ کر اس تلاش میں نکلی تھیں کہ کہیں کوئی قابلہ آتا جاتا نظر آجائے، تو اس سے پانی ہاتھ آئے، اور اس وقت اضطراب میں دوڑ کر اس پہاڑی سے اس پہاڑی پر جاتی تھیں کہ شاید بلندی سے کسی قافلہ پر نظر پڑجائے۔ (آیت) ” شعآئر اللہ۔ یعنی اللہ کے دین کی نشانیاں یا علامتیں، دین الہی کے وہ شعائر جو طاعتوں میں بہ طور علم کام دیں۔ (آیت) ” شعآئر “ جمع ہے شعیرہ کی اور اس کے معنی ہیں علامت کے۔ جمع شعیرۃ وھی العلامۃ (مدارک) اے اعلام طاعۃ وکل شی جعل علما من اعلام طاعۃ اللہ فھو من شعائر اللہ (کبیر) ھی العلائم التی ندب اللہ الیھاوامر بالقیام بھا (بحر عن الزہری) اصطلاح میں مراد مناسک حج کی علامتیں ہیں۔ اے من اعلام مناس کہ ومتعبداتہ (مدارک) من معالم اللہ فی الحج (ابن عربی) 574 ۔ حج۔ عبادات اسلامی کا چوتھا رکن، یا نماز، روزہ، زکوٰۃ، کے بعد چوتھا فریضہ۔ امت کے ہر فرد پر خواہ وہ دنیا کے کسی علاقہ کا باشندہ ہو بہ شرط استطاعت وصحت وامن راہ، عمر میں ایک بار فرض ہے۔ گویا دنیائے اسلام کی بین الاقوامی سالانہ کانگریس، ارکان حج، یعنی جو چیزیں فرض ہیں، وہ تین ہیں :۔ ( 1) پوشش احرام۔ یعنی حدود حرم میں داخلہ سے پہلے عام لباس اتار کر احرام یا بےسلا ہوا لباس پہن لینا (2) میدان عرفات میں 9 ذی الحجہ کو حاضری۔ اصطلاح میں اسے وقوف کہتے ہیں۔ (3) طواف زیارت۔ یعنی وقوف کے بعد خانہ کعبہ کا طواف۔ اور واجبات حج چار ہیں :۔ ( 1) 9، 10 ذی الحجہ کی درمیانی شب میں مزدلفہ میں قیام (2) صفاومروہ کے درمیان آمد ورفت۔ اصطلاحی نام سعی ہے۔ (3) مزدلفہ میں قیام کے بعد منی میں کنکریاں پھینکنا۔ اصطلاحی نام رمی جمرات ہے (4) طواف کعبہ (یہ طواف فرض کے علاوہ ہے اور طواف صدر کہلاتا ہے) قربانی کرنا، سر کے بال اتروانا، وغیرہا بہت سے سنن ومستحبات ان کے علاوہ ہیں، عمرہ۔ اس کا دوسرا نام حج اصغر ہے۔ اس میں حج کی طرح مہینہ اور تاریخ کی قید نہیں۔ اور نہ اس میں وقوف عرفات ہے، اور قیام مزدلفہ ومنی، سال کے ہر موسم میں اور ہر وقت ہوسکتا ہے۔ عمرہ کی نیت سے احرام حدود حرم سے باہر باندھے، طواف کعبہ اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرکے بال اتروائے، بس عمرہ ہوگیا۔ احرام کھول دے۔ 575 ۔ (آیت) ” لاجناح علیہ۔ صفا ومروہ کو نسبت تو توحید کے خاص الخاص گھرانے سے حاصل تھی۔ یعنی ہاجرہ اور اسمعیل اور ابراہیم (علیہم السلام) سے۔ لیکن زمانہ جاہلیت میں قبضہ ان پر بھی مشرکوں کا ہوگیا تھا۔ اور ایک ایک پہاڑی پر ایک ایک دیوی کی مورتی نصب ہوگئی تھی۔ مشرک تیرتھ کرنے جاتے تو انہیں بھی دوڑ دوڑ کر چھوتے اور چومتے۔ قرن اول کے مسلمانوں، صحابیوں کی توحید پرستی اور شرک بیزاری کا کیا پوچھنا۔ قدرۃ خیال گزرا کہ کہیں ان پہاڑیوں کے درمیان آمد ورفت شعائر شرک میں نہ قرار پائے۔ آیت میں ا نہی کا شبہ دور کیا گیا ہے۔ اور ارشاد ہوا ہے کہ یہ جاہلیت کی نہیں عین توحید کی یادگاریں ہیں۔ اس لیے اگر ان کے درمیان آمد ورفت اسلامی، وتوحیدی حج کا جزو رکھی جائیں، تو اس میں مطلق مضائقہ نہیں (آیت) ” یطوف بھما “ طوف کے اصلی معنی کسی چیز کے گرد گھومنے یا چکر کاٹنے کے ہیں۔ لیکن وسعت دے کر اس کے معنی مطلق آس پاس جانے کے بھی کیے گئے ہیں۔ اور یہاں مراد دو مقاموں کے درمیان آمد ورفت سے ہے۔ الطوف المشی حول الشیء (راغب) والمراد ھنا السعی بینھما (مدارک) یہ سعی صفا ومروہ کے درمیان، حنفیہ کے ہاں واجب ہے۔ امام احمد (رح) کے ہاں سنت ہے۔ اور مالکیہ وشافعیہ کے ہاں فرض ہے۔ یہ آمد ورفت سات بار ہوتی ہے۔ درمیان کا کچھ فاصلہ، تقریبا دو فرلانگ دوڑ کر چلنا ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا نام سعی (دوڑ) ہے۔ اس فاصلہ کی علامت کے طور پر سڑک کے کنارے دو پتھر سبز رنگ کے نصب کردیئے گئے ہیں۔ کسی زمانہ میں یہاں بالکل ویرانہ تھا۔ لیکن اب تو عین بازار ہے، اور صفا ومروہ کے درمیان خوب آبادی اور چہل پہل رہتی ہے۔ 576 ۔ (اس لیے اس کے ہاں نہ اعزاز واکرام کی کمی کسی نیک کار کے لیے ہوگی، اور نہ وہ کسی کے اخلاص عمل سے ناواقف ہے) (آیت) ” تطوع “ تطوع ہر ہو چیز ہے فرض کے علاوہ جو انسان اپنی خوشی سے انجام دے۔ (آیت) ” خیرا “ خیر عام معنی میں ہے۔ ہر عمل خیر کو شامل۔ المراد منہ جمیع الطاعات (کبیر عن الحسن) وھذا اولی لانہ اوفق لعموم اللفظ (کبیر) مطلب یہ ہے کہ کوئی سا بھی نیک کام ہو، کسی نوعیت اور کسی درجہ کا، جو بھی انسان خوشی سے انجام دے گا، اس کا اجر اسے مل کر رہے گا۔ (آیت) ” شاکر “ شکر کا لفظ جب اللہ کے لیے آتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ بندہ کی تھوڑی سی اطاعت پر معاوضہ بہت زائد دیتا ہے۔ الشکر من اللہ تعالیٰ ان یعطی لعبدہ فوق ما یستحقہ بشکر الیسیر ویعطی الکثیر (معالم) (آیت) ” علیم “ یعنی نیتوں تک سے واقف۔ علیم بنیتہ (معالم) ابھی ایک ہی آیت اوپر ذکر فضائل صبر کا ہورہا تھا۔ اس کے معا بعد ذکر حج کا شروع ہوجانا، علاوہ اور بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کے ایک خاص مناسبت بھی صبر سے رکھتا ہے۔ ان سطور کے راقم نامہ سیاہ کا ذاتی تجربہ ہے کہ موسم حج کے ہجوم وچپقلش اور مسلسل کوچ اور مقام میں فرائض تک کی پابندی مشکل پڑجاتی ہے۔ سنن ومستحبات کا کیا ذکر ہے۔ اشتعال کے باوجود زبان پر قابو رکھیے، ہاتھ پیر پر قابو رکھیے، کان اور آنکھ پر قابو رکھیے۔ غرض صبر کا پورا امتحان ہر طرح ہوجاتا ہے۔
Top