Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور تم خوب جان چکے ہو ان لوگوں کو جنہوں نے تم میں سے سبقت کے بارے میں تجاوز کیا تھا،229 ۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل بندر ہوجاؤ،230 ۔
229 ۔ (آیت) ” لقد علمتم “۔ علم کا لفظ خود ہی تحقیق کے معنی میں قرآن مجید میں بار ہا استعمال ہوا ہے۔ پھر ل حرف تاکید۔ قد حرف تاکید۔ (آیت) ” لقد “ جس فعل پر داخل ہوتا ہے، اس میں معنی شدت تاکید کے پیدا کرتا ہے۔ گویا قرآن بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کا کوئی واقعہ ان کے لیے خوب اچھی طرح سے جانا بوجھا ہوا یا دلا رہا ہے۔ اور ان سے کہہ رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل جس واقعہ کا ذکر آگے آرہا ہے، وہ تمہاری تاریخ کا ایک مسلم و متعارف واقعہ ہے اور تم اس سے بلاشک و اشتباہ خوب واقفیت رکھتے ہو۔ (آیت) ” منکم “ یعنی تمہارے اسلاف و اجداد میں سے۔ (آیت) ” فی السبت “۔ یعنی احکام سبت کے بارہ میں۔ سبت کے لفظی معنی ہیں ہفتہ کا ساتواں دن، یعنی شنبہ یا سینچر۔ (آیت) ” السبت “۔ شریعت یہود کی اصطلاح میں ایک مقدس دن، مسیحیوں کے اتوار کی طرح ہے۔ یہ دن صرف یاد خدا اور عبادت کے لیے مخصوص ہے۔ اور اس روز تجارت، زراعت، شکار وغیرہ ہر قسم کے دنیوی کام سب ممنوع تھے، اور ممانعت بھی اس شدومد کے ساتھ کہ جو اس حکم کو توڑے اس کی سزاقتل۔ توریت کے الفاظ ہیں :۔ ” پس سبت کو مانو اس لیے کہ وہ تمہاریہ لیے مقدس ہے۔ جو کوئی اس کو پاک نہ جانے وہ ضرور مارڈالا جائے۔۔ پس جو کوئی روز سبت کو کام کرے وہ ضرور مار ڈالا جائے “۔ (خروج۔ 3 1: 14، 15) (آیت) ” اعتدوا “۔ تجاوز کرجاتے تھے شریعت موسوی کے حدود سے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں یہود کی ایک بڑی آبادی مقام ایلہ میں تھی۔ یہ ذکر انہیں کا ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ حکومت 10 13 ق ؁، م تا 973 ؁ ق، م کا ہے۔ مقام ایلہ اگر وہی ہے جس کا ذکر توریت میں ایلات (Elath) کے نام سے آتا ہے (استثناء 2:8) تو یہ فلسطین کے جنوب میں، عرب کی عین شمالی سرحد پر (قدیم علاقہ ادوم میں) بحرقلزم کی مشرقی خلیج میں لب ساحل واقع ہے۔ موجودہ جغرافیہ اس کو عقبہ کے نام سے پہچانتا ہے۔ اور عقبہ خلیج عقبہ کا مشہور بندرگاہ ہے۔ ایلہ کے یہودی اپنی شریعت کے قانون کی مسلسل خلاف ورزی کرتے، مچھلی کا شکار ایک خاص چالاکی کے ساتھ اور اسے ظاہری صورت جواز دے کر سبت کے دن کیا کرتے۔ 230 ۔ اس مسلسل نافرمانی پر سزاتوان مجرموں کو یقیناً ملی۔ باقی کیا ملی، اس کی تفصیلات اس درجہ قطعی نہیں، جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ یہ سزا اسی طرح واقع ہوئی جیسی قرآن کے ظاہر الفاظ سے ظاہر ہورہی ہے۔ ؛ یعنی وہ انسان بندر بنے اور پھر تین دن کے بعد ہلاک ہوگئے۔ اس تفسیر پر عقلا کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ جو لوگ اللہ کے قانون تشریعی کے توڑنے میں اتنے جری وبیباک ہوں، ان کے حق میں خالق کائنات اپنے قانون تکوینی کو کسی حد تک اگر بدل دے، اور بجائے ” ارتقاء “ کے کبھی اگر ” ارتقاء معکوس “ ہوجائے تو اس میں عدم امکان تو خیر کیا ہوگا۔ استبعاد بھی کچھ ایسا زائد تو نہیں لیکن روایتیں خود اس نتیجہ پر تمامتر متفق نہیں، بلکہ یہ قول تابعین ہی کے زمانہ سے تفسیروں میں لکھا چلا آرہا ہے کہ مسخ صرف معنوی ہوا تھا، صوری نہیں۔ یعنی ان کے عادات واخلاق بندروں کے سے کردیئے گئے تھے۔ اور بندر کا اطلاق ان پر مجازا ہونے لگا تھا۔ ورنہ حقیقۃ وہ بندروں کے جسم پر قالب میں تبدیل نہیں کیے گئے تھے۔ لم یمسخوا قردۃ انما ھو مثل ضربہ اللہ لھم (ابن جریر، عن مجاہد) مسخت قلوبھم ولم یمسخوا قردۃ (ابن جریر۔ عن مجاہد) روی عن مجاھدفی تفسیر ھذا الایۃ انہ انما مسخت قوبھم وردت افھامھم کا فھام القردۃ (قرطبی) مفردات میں ایک قول اسی معنی میں نقل ہوا ہے۔ قیل بل جعل اخلاقھم کا خلاقھا وان لم تکن صورتھم کصور تھا (راغب) لیکن جمہور مفسرین کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ قول غریب اور ظاہر سیاق قرآنی کے خلاف ہے۔ قول غریب خلاف الظاھر من السیاق فی ھذا المقام وفی غیرہ (ابن کثیر) وظاہر القرآن انہم مسخوا قردۃ علی الحقیقۃ وعلی ذلک جمھور المفسرین وھو الصحیح (روح)
Top