Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 96
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا١ۛۚ یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ١ۚ وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَلَتَجِدَنَّهُمْ : اور البتہ تم پاؤگے انہیں اَحْرَصَ : زیادہ حریص النَّاسِ : لوگ عَلٰى حَيَاةٍ : زندگی پر وَمِنَ : اور سے الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے اَشْرَكُوْا : شرک کیا يَوَدُّ : چاہتا ہے اَحَدُهُمْ : ان کا ہر ایک لَوْ : کاش يُعَمَّرُ : وہ عمر پائے اَلْفَ سَنَةٍ : ہزار سال وَمَا : اور نہیں هُوْ : وہ بِمُزَحْزِحِهٖ : اسے دور کرنے والا مِنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب اَنْ : کہ يُعَمَّرَ : وہ عمر دیا جائے وَاللہُ : اور اللہ بَصِیْرٌ : دیکھنے والا بِمَا : جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے ہیں
اور آپ انہیں زندگی پر حریص سب لوگوں کے بڑھ کر پائیں گے،334 ۔ (یہاں تک کہ) مشرکوں سے بھی بڑھ کر،335 ۔ ان میں سے ایک ایک یہ چاہتا ہے کہ ہزار (ہزار) برس کی عمر پائے،336 ۔ حالانکہ اگر اتنی عمر وہ پا بھی جائے تو یہ (امر) اسے عذاب سے تو نہیں بچا سکتا،337 ۔ اور جو کچھ وہ کررہے ہیں اللہ اسے (خوب) دیکھ رہا ہے،338 ۔
334 ۔ یعنی اس زندگی پر حریص جو پلیدی اور گندگی سے لبریز ہے۔ زندگی سے محبت اور موت سے وحشت تو ایک حد تک طبعی ہے، اور ان طبعی حدود کے اندر ہرگز اسلام میں کوئی ملامت نہیں، لیکن یہود کا جذبہ حب دنیا طبعی حدود سے تجاوز کرگیا تھا۔ دنیا پرستی مقصود بالذات بن گئی تھی۔ اور روحانیت کا ذوق بالکل مردہ ہوچکا تھا۔ ہندوستان میں بھی جن قوموں نے جنتر منتر وغیرہ ظاہری رسول میں غلو اور ان پر تکیہ کر رکھا ہے۔ ان کے دل بھی ذوق آخرت سے یکسر محروم ہوچکے ہیں، اور یہود کی حب دنیا مال آج بھی ضرب المثل ہے۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا میں تالمود وغیرہ کے حوالہ سے اس مضمون کے متعدد قول نقل ہوئے ہیں کہ دنیوی زندگی بجائے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے، معصیت گوارا کرلینا چاہیے لیکن موت نہ گوارا کرنا چاہیے۔ وقس علی ہذا۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ 335 ۔ (جو بیچارے کتاب آسمانی اور پیام انبیاء کی دولتوں سے محروم ہیں) مطلب یہ ہے کہ مشرکین تو سرے سے اخروی نعمتوں کے لذت شناس ہی نہیں، وہ اگر ادھر سے غیر ملتفت ہو کر اپنا مرکز توجہ و محور زندگی اسی مادی زندگی کو بنائے رکھیں، تو کچھ ایسا حیرت انگیز نہیں، غضب تو یہ یہود کر رہے ہیں جو اپنے آسمانی صحیفوں اور پیمبرانہ ہدایتوں کے ہدایتوں کے باوجود بھی مشرکوں سے بڑھ کر دنیا سے لپٹے ہوئے ہیں، ایک عجیب بات اسی سلسلہ میں یہ ہے کہ تطویل عمر کے جو عجب عجب نظریے آج یورپ میں قائم ہو رہے ہیں اور طرح طرح کی تدبیریں اور نسخے اس کے لیے ایجاد ہورہے ہیں، ان میں سب سے زیادہ پیش پیش یہودی ہی ڈاکٹر اور اہل سائنس ہیں۔ 336 ۔ (آیت) ” احدھم “ ضمیر ھم کا مرجع یہود ہیں اے یوداحد الیھود (ابن کثیر عن السدی) بعض نے مرجع (آیت) ” الذین اشرکوا “ کو ٹھہرایا ہے لیکن سیاق قول اول کو صاف ترجیح دے رہا ہے۔ کما یدل علیہ نظم السیاق (ابن کثیر) 337 ۔ بالفرض اس قدر طویل زندگی حاصل بھی ہوگئی تو آخر کیا نتیجہ ؟ بہرحال خاتمہ تو ایک روز اس طویل سے طویل زندگی کا بھی ہونا ہے۔ اور پھر اسی مواخذہ اخروی کا سامنا۔ سو ایسی لایعنی اور لغوتمناؤں کے پھیر میں پڑے رہنا کسی دیندار شخص کے لیے ممکن ہی کیونکر ہے۔ 338 ۔ (اور ہر طرح کی جزاوسزا پر قادر ہے) خدا تعالیٰ کی ہمہ بینی، ہمہ توانی کا استحضار انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے کے باب میں اکسیر ہے۔ انسان غفلت ومعصیت کی طرف قدم اسی وقت رکھتا ہے جب ذہن سے ایک حاضر وناظر حاکم کا تصور غائب ہوتا ہے۔ یہی راز ہے اس کا کہ قرآن مجید میں اللہ کی صفات ہمہ بینی وہمہ دانی کی یاد دہانی اس کثرت و تکرار کے ساتھ ہوئی ہے۔
Top