Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 102
لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَا١ۚ وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ
لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہ سنیں گے حَسِيْسَهَا : اس کی آہٹ وَهُمْ : اور وہ فِيْ : میں مَا اشْتَهَتْ : جو چاہیں گے اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل خٰلِدُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے
اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے،136۔ اور وہ لوگ اپنی جی چاہی چیزوں میں ہمیشہ رہیں گے،137۔
136۔ (اس لئے کہ وہ جنت میں ہوں گے اور جنت دوزخ سے بالکل الگ اور فاصلہ پر ہوگی) (آیت) ” ان الذین سبقت لھم منا لحسنی “۔ سے معنی بعض صوفیہ نے یہ لئے ہیں کہ سبقت محبتنا ایاہ فی الازل یعنی ہماری محبت ان کے ساتھ ازل میں سابق ہوئی، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہی وہ استعداد سابق ہے جس کی بابت کہا جاتا ہے کہ محبت کی ابتداء محبوت کی جانب سے ہوتی ہے۔ 137۔ جنت کی ایک خاص اور امتیازی خصوصیت یہاں بہ کمال بلاغت ایک مختصر فقرہ میں بیان کردی گئی۔ یعنی وہ جگہ ایسی ہوگی جہاں سب کچھ انسان کی اپنی مرضی کے مطابق ہوگا۔ جو ہوا بھی چلے گی اس کی مرضی کے موافق، جو موسم بھی وہ چاہے گا وہی پیدا ہوجائے گا، جو غذا وہ چاہے گا وہی حاضر ہوگی، جو مشغلہ اسے پسند ہوگا وہی اس کے لئے موجود ہوگا، جو پڑھنا وہ چاہے گا وہی کتابیں اس کے لئے فراہم ہوجائیں گی، وقس علی ھذا۔ دنیا کی مختصر سی زندگی میں اپنے کو قوانین الہی کے ماتحت کردینے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنت میں سارے قوانین تکوینی خود اسی کے ماتحت و محکوم ہوں گے اور پھر یہ کیفیت عارضی نہیں، وقتی نہیں، دائمی، لازوال، غیر منقطع ہوگی ! کوئی انسانی دماغ پورا تصور بھی ان راحتوں اور مسرتوں کا نہیں کرسکتا۔
Top