Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 2
اِ۟لَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا
الَّذِيْ لَهٗ : وہ جس کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَمْ يَتَّخِذْ : اور اس نے نہیں بنایا وَلَدًا : کوئی بیٹا وَّلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهُ : اس کا شَرِيْكٌ : کوئی شریک فِي الْمُلْكِ : سلطنت میں وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کیا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے فَقَدَّرَهٗ : پھر اس کا اندازہ ٹھہرایا تَقْدِيْرًا : ایک اندازہ
وہی ہے کہ آسمان اور زمین اسی کی ملک ہیں اور اس نے کسی کو اپنی اولاد نہیں قرار دیا اور نہ اس کا کوئی حکومت میں شریک ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر سب کا الگ الگ اندازہ رکھا،1۔
1۔ (اور کوئی شے نہ اس کے دائرہ تخلیق سے باہر ہے نہ دائرہ تقدیر سے) (آیت) ’ الفرقان “۔ فرقان کے معنی پر حاشیہ سورة بقرہ پ 1 میں گزر چکا۔ یہاں (آیت) ” الفرقان “۔ سے مراد قرآن کے ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ ولا نزاع ان الفرقان ھو القران (کبیر) (آیت) ” عبدہ “۔ مراد رسول اللہ ﷺ کا ہونا ظاہر ہے۔ عبد پر حاشیہ سورة بقرہ پ 1 آیت (آیت) ” وان کنتم فی ریب مما “۔ الخ پر گزرچکا۔ (آیت) ’ ’ للعلمین “۔ عالمین کے لفظ نے ایک بار پھر واضح کردیا کہ اسلام ایک عالمگیر دین ہے کوئی نسلی، قومی یا وطنی مذہب نہیں، قرآن کی مخاطب ساری دنیا ہے، کوئی مخصوص قوم نہیں۔ وعموم الرسالۃ من خصائصہ (علیہ السلام) (مدارک) (آیت) ” لم یتخذ .... الملک “۔ مسیحی شرک کے مظہر خصوصی بھی دو ہیں۔ جن کی تردید یہاں کردی گئی۔ ملاحظہ ہو پ 15 سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت۔ (آیت) ” خلق ..... تقدیرا “۔ یونان کے مشرک فلسفی تقدیر الہی کے منکر ہوئے ہیں، اور انہیں کی پیروی میں ان کی ” حکمت “ سے مرعوب ہو کر یہود کا بھی ایک فرقہ تقدیر الہی کا منکر ہوگیا تھا۔ آیت کے اس جزو کا اشارہ اسی گمراہی کی جانب ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ عقیدہ جس طرح جبر محض کا غلط ہے اسی طرح اختیار محض کا بھی، کائنات میں جو کچھ بھی ہورہا ہے سب مشیت الہی تکوینی کے مطابق ہی ہورہا ہے اور بندہ کے اعمال اختیاری میں ارادۂ عبد اس کا منافی نہیں۔
Top