Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 80
وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ۪ۙ
وَاِذَا : اور جب مَرِضْتُ : میں بیمار ہوتا ہوں فَهُوَ : تو وہ يَشْفِيْنِ : مجھے شفا دیتا ہے
اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے،60۔
60۔ یعنی اس خدائے واحد کی ذات تمام صفات کمال کی جامع ہے۔ وہی خالق ہے اور وہی ہادی ومدبر بھی، یہ نہیں کہ خلق کا کام کوئی اور دیوتا کرے اور انتظام وہدایت کا دیوتا کوئی اور ہو۔ کھانا اور پانی دونوں وہی خدائے واحد دیتا ہے۔ یہ نہیں کہ ایک دیوتا زراعت ونباتات کا ہو اور کوئی دیوتا بارش کا۔ صحت وشفا بھی وہی خدائے واحد دیتا ہے۔ یہ نہیں کہ بیماری سے صحت بخشنے کے لیے کوئی الگ دیوی یادیوتا ہو۔ مشرک جاہلی قوموں نے انہی صفات کے لیے برابر الگ الگ دیویوں، دیوتاؤں کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔ (آیت) ” الا رب العلمین “۔ یہ استثناء اس لیے کہ مشرکین دوسرے دیویوں اور دیوتاؤں کے ساتھ ساتھ حق تعالیٰ کی بھی پرستش جاری رکھے ہوئے تھے۔ انھم کانوا یعبدون الاصنام مع اللہ فقال ابراھیم کل من تعبدون اعدائی الا رب العلمین (معالم) (آیت) ” فھو یھدین۔ یطعمنی ویسقین، فھو یشفین “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ ان فقروں کے اندر پوری تعلیم عبدیت اور ادب کی موجود ہے جاہل مدعیان زہد دنیوی نعمتوں کی تحقیر کرتے اور ان سے اپنا استغناء ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ایک پیغمبر کی زبان سے یہ کہلایا جارہا ہے کہ اسے تمنا جس طرح ہدایت کی ہے۔ اسی طرح کھانے اور پینے اور بیماری سے تندرست ہونے کی بھی ہے۔ (آیت) ” اذا مرضت فھو یشفین “۔ آیت کے الفاظ پر غور ہو۔ حضرت یہ نہیں کہتے کہ وہی مجھے بیمار ڈالتا ہے اور وہی شفا دیتا ہے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ بیمار جب میں پڑتا ہوں، تو شفاوہی دیتا ہے۔ گویا بیماری یا نقص کا انتساب تمامتر اپنی جانب اور شفا بخشی یا کمال کا تمامتر حق تعالیٰ کی جانب۔ اسی کا نام رعایت ادب اور ادائے حق عبدیت ہے۔
Top