Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 38
قَالَ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَیُّكُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ
قَالَ : اس (سلیمان) نے کہا يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَيُّكُمْ : تم میں سے کون يَاْتِيْنِيْ : میری پاس لائے گا بِعَرْشِهَا : اس کا تخت قَبْلَ : اس سے قبل اَنْ : کہ يَّاْتُوْنِيْ : وہ آئیں میرے پاس مُسْلِمِيْنَ : فرمانبردار ہو کر
(سلیمان (علیہ السلام) نے) کہا اے درباریو، تم میں کون ایسا ہے جو اس (بلقیس) کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ لوگ مطیع ہو کر حاضر ہوں،43۔
43۔ وہ قاصد اب واپس پہنچتا ہے، اور حالات دربار سلیمان بیان کرتا ہے، بلقیس یہ سن کر حاضری کا قصد کرتی ہے، اس کی اطلاع حضرت سلیمان کو وحی الہی یا کسی اور ذریعہ سے آجاتی ہے۔ اس وقت وہ یہ گفتگو اپنے اہل دربار سے کرتے ہیں، عجب نہیں کہ اس خارق عادت کے ذریعہ سے مقصود حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اپنے کمالات باطنی کے ساتھ اپنی قوت اعجازی کا اظہار ہو۔ اس کے اعجازی پہلو کو سمجھنے کے لیے ملک یمن اور فلسطین کا درمیانی فاصلہ نظر میں رہے۔ بحری راستہ سے پہنچنے میں اس وقت مہینوں کا ذکر نہیں، دو دو تین تین سال لگ جاتے تھے !
Top