Tafseer-e-Majidi - Az-Zumar : 42
اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَا١ۚ فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَتَوَفَّى : قبض کرتا ہے الْاَنْفُسَ : (جمع) جان۔ روح حِيْنَ : وقت مَوْتِهَا : اس کی موت وَالَّتِيْ : اور جو لَمْ تَمُتْ : نہ مرے فِيْ : میں مَنَامِهَا ۚ : اپنی نیند فَيُمْسِكُ : تو روک لیتا ہے الَّتِيْ : وہ جس قَضٰى : فیصلہ کیا اس نے عَلَيْهَا : اس پر الْمَوْتَ : موت وَيُرْسِلُ : وہ چھوڑ دیتا ہے الْاُخْرٰٓى : دوسروں کو اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : ایک وقت مُّسَمًّى ۭ : مقررہ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّتَفَكَّرُوْنَ : غور و فکر کرتے ہیں
اللہ جانوں کو قبض کرتا ہے ان کی موت کے وقت اور ان (جانوں) کو بھی جن کی موت نہیں آئی ہے ان کے سونے کے وقت،54۔ پھر وہ ان (جانوں) کو تو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم کرچکا ہے، اور باقی (جانوں) کو ایک میعاد معین کیلئے رہا کردیتا ہے،55۔ بیشک اس (سارے تصرف) میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو سوچتے رہتے ہیں،56۔
54۔ نفس۔ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ وہ روح کے مرادف ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں ایک نفس حیاتی (یا فزیکل لائف) دوسرے نفس شعوری (یا سایکیکل لائف) ولکل انسان نفسان احداھما نفس الحیاۃ وھی التی تفارقہ عند الموت فتزول بزوالھا النفس والاخری نفس التمییز وھی التی تفارقہ اذا نام وھو بعد النوم یتنفس (معالم و مدارک) ہر انسان کے دونفس ہوتے ہیں ایک تو نفس حیاتی، جو موت کے وقت اس سے سلب ہوجاتا ہے کہ اس کے جانے سے جان چلی جاتی ہے اور دوسرا نفس ادراک وہ نیند کے وقت اس سے جدا ہوجاتا ہے اور نیند کے بعد واپس آجاتا ہے۔ (آیت) ’ ’ یتوفی ..... موتھا “۔ یہ سلب روح من کل الوجوہ ہوتا ہے جس کے بعد نہ حیات جسمانی باقی رہ جاتی ہے نہ شعور نہ ادراک۔ (آیت) ” والتی ...... منامھا “۔ یہ سلب روح صرف جزئی حیثیت سے ہوتا ہے۔ جس سے حیات جسمانی جوں کی توں باقی رہتی ہے، لیکن شعور وادراک باقی نہیں رہتا۔ نیند کے وقت سلب صرف حیات شعوری کا ہوتا ہے۔ 55۔ (سو وہ معطل روحیں جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا ہے نیند سے جاگ کر بدستور تصرفات جسمی میں مصروف ہوجاتی ہیں) (آیت) ” فیمسک ....... الموت “۔ سو یہ روحیں پھر تصرفات جسمانی کی طرف واپس نہیں آتیں۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ ” یخرج الروح عند النوم ویبقی شعاعۃ فی الجسد فبذالک یری الرؤیافاذا انتبہ من النوم عاد الروح الی جسدہ بامر مامن لحظۃ۔ (معالم۔ مدارک) ” اصل روح تو نیند کے وقت بھی جسم سے نکل جاتی ہے لیکن اس کا تعلق جسم کے ساتھ باقی رہتا ہے۔ (جیسے آفتاب کا شعاعی تعلق کروڑوں میل دور ہونے کے باوجود زمین سے قائم رہتا ہے) اور سوتا ہوا انسان (اسی جزئی تعلق کی بنا پر) خواب دیکھتا رہتا ہے پھر جب بیداری کا وقت آتا ہے تو یہ روح چشم زدن سے بھی کم میں جسم میں واپس آجاتی ہے۔ “ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ :۔ فی ابن ادم نفس وروح بینھما شعاع مثل شعاع الشمس فالنفسھی التی بھا العقل والتمییز والروحھی التی بھا النفس والتحرک فاذا نام العبد قبض اللہ نفسہ ولم یقبض روحہ (مدارک) ” ابن آدم میں نفس بھی ہوتا ہے اور روح بھی، اور دونوں کا ایک شعاعی تعلق مثل شعاع آفتاب کے ہوتا ہے، بس نفس تو ہو ہے جو ادراک و شعور کا مبدأ ہے اور روح وہ ہے جس سے تنفس و حرکت قائم ہے اور انسان جب سوتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے نفس کو قبض کرلیتا ہے نہ کہ اس کی روح کو۔ “ 56۔ یعنی دلائل و شواہد اس حقیقت کے کہ اللہ حکیم وقدیر ہی ہر دقیق وخفی تصرف پر قادر ہے۔ نیند اور خواب کی باریکیوں پر ماہرین فن نے جو دفتر کے دفتر لکھ ڈالے ہیں وہ سب حکمت خداوندی ہی کی شرحیں اور تفسیریں ہیں۔
Top