Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 42
اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَا١ۚ فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَتَوَفَّى : قبض کرتا ہے الْاَنْفُسَ : (جمع) جان۔ روح حِيْنَ : وقت مَوْتِهَا : اس کی موت وَالَّتِيْ : اور جو لَمْ تَمُتْ : نہ مرے فِيْ : میں مَنَامِهَا ۚ : اپنی نیند فَيُمْسِكُ : تو روک لیتا ہے الَّتِيْ : وہ جس قَضٰى : فیصلہ کیا اس نے عَلَيْهَا : اس پر الْمَوْتَ : موت وَيُرْسِلُ : وہ چھوڑ دیتا ہے الْاُخْرٰٓى : دوسروں کو اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : ایک وقت مُّسَمًّى ۭ : مقررہ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّتَفَكَّرُوْنَ : غور و فکر کرتے ہیں
خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں انکی روحیں سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کر چکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں
بیان قدرت خداوندی و اثبات حشروتنبیہ برشناعت مشرکین : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” اللہ یتوفی الانفس حین موتھا ....... الی ....... اذا ھم یستبشرون “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں حق تعالیٰ نے منکرین کی رد میں اپنی قدرت کاملہ کا ذکر فرمایا تھا اور اس سے غرض نبی کریم ﷺ کو تسلی دینی تھی، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا تھا کہ قیامت کے روز مجرمین کا انجام خود ان کی نظروں کے سامنے آجائے گا اب ان آیات میں قیامت اور قیامت کے روز انسانوں کی حق تعالیٰ شانہ کے سامنے پیشی کا ایک منظر بیان کیا جارہا ہے اور یہ منظر ایسی ایک حالت ہے جو ہر روز وشب ہر انسان پر واقع ہوتی ہے وہ انسان کا سونا جو بمنزلہ موت ہے اور بیدار ہونا جو بعث بعد الموت کانمونہ ہے ارشاد فرمایا۔ اللہ ہی قبض کرلیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت جبکہ قضاء الہی سے ان کی موت کا وقت آجائے تو من کل الوجوہ ان کو قبض کرلیتا ہے اور ان جانوں کو بھی قبض فرماتا ہے حالت خواب میں جن کی موت نہیں آتی ہے ان کے سونے کے وقت میں، اس طرح سے کہ حواس تو معطل کردیئے جاتے ہیں مگر حیات باقی رہتی ہے پھر اس کے بعد ان جانوں کو تو ابدان کی طرف لوٹنے سے روک لیتا ہے جن پر موت کا فیصلہ فرما دیا اور باقی ان دوسری جانوں جن پر بحالت نوم صرف ادراک و شعور سے تعطل واقع فرمایا ہے اور ابھی ان کی موت کا وقت نہیں آیا ان کو چھوڑ دیتا ہے اور واپس فرما دیتا ہے، ابدان کے تصرف کی جانب ایک وقت معین تک کے لیے تاکہ بیداری کے بعد بدستور یہ جان بدن میں تصرف کرنے لگے، بیشک اس تمام مجموعہ حال میں بہت بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے واسطے جو غور وفکر کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے ان احوال وواقعات میں غور وفکر کرتے ہیں اور بیشک ہر انسان کا سونا اور سونیکے بعد اٹھنا، بعث بعد الموت اور قیامت کی بہت ہی واضح نشانی ہے۔ اب باوجود ان واضح دلائل کے قیام کے مشرکین کا پھر بھی حق تعالیٰ کی الوہیت و توحید کا نہ ماننا یا قیامت پر ایمان نہ لانا کیا اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے خدا کے سوا اپنے واسطے کچھ سفارشی بنالیے ہیں جن پر انہوں نے بھروسہ کرلیا ہے کہ یہ ان کو کسی قسم کی تکلیف و عذاب نہ پہنچنے دیں گے یا عذاب سے بچا لیں گے آپ کہہ دیجئے کیا یہ ممکن ہے کہ یہ ان کے معبود ان کو خدا کے عذاب سے بچا لیں گے اگرچہ یہ نہ تو کسی چیز کے مالک ہوں اور نہ ہی کچھ سمجھتے ہوں، ظاہر ہے کہ شفاعت کے لیے علم اور قدرت دونوں چیزیں ضروری ہیں تو جو معبود نہ علم رکھتے ہوں اور نہ ان کو ذرہ برابر کسی چیز کی قدرت ہو بھلا وہ کسی کی کیا سفارش کرسکیں گے یا کسی مصیبت سے وہ کسی کو کیسے بچا سکیں گے، آپ کہہ دیجئے سفارش تو سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی کسی کی شفاعت نہ کرسکے گا، اور جس کسی کو سفارش کی اجازت دی جاسکتی ہے وہ دو بنیادوں پر قائم ہے، ایک شفیع کا مقبول وپسندیدہ ہونا اور دوسرے جس کی سفارش کی جائے اس کا قابل معافی ہونا، اب جن معبودوں کو یہ مشرکین اپنا شفیع قرار دے رہے ہیں وہ اللہ کے نزدیک کسی درجہ میں بھی پسندیدہ نہیں۔ اور خود یہ لوگ اس کے اہل نہیں کہ ان کی نافرمانی معاف کی جائے پھر کس بناء پر ان کو زعم ہے کہ ہمارے معبود ہمیں آخرت کے عذاب سے بچا لیں گے اگر عذاب آنے میں بھی لگے، اس لیے سمجھ لینا چاہئے کہ اسی کے واسطے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی۔ کائنات کی کوئی چیز اس کے حکم کے بغیر کچھ حرکت بھی نہیں کرسکتی چہ جائیکہ اللہ کے عذاب اور قہر کا مقابلہ یا اس کی مدافعت کرسکے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ اور اس کی بارگاہ میں حاضری پر تمہارے یہ سب دھوکے اور فریب زائل ہوجائیں گے اور باوجود اس کے کہ دلائل توحید قائم ہوچکے لیکن کفار مکہ اور مشرکین کا حال یہ ہے کہ جب اللہ وحدہ لاشریک لہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل منقبض ہوجاتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جب خدا کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جائے تو فورا ہی خوش ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کو ایمان و توحید سے نفرت ہے اور کفر وشرک کی محبت دلوں میں رچی ہوئی ہے۔ اسی کا یہ اثر ہے کہ اللہ کے ذکر سے ان کے دل بجھ جائیں اور چہرے کبیدہ ہوجائیں اور غیر اللہ کے ذکر پر انبساط و فرحت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں، اسی بناء پر یہ چیز دیکھی جاتی ہے کہ اہل باطل کو ایمانی باتوں کے سننے سے کراہت ہوتی ہے اور مادی دنیا کے تذکرے لذیذ وخوشگوار معلوم ہوتے ہیں۔ توفی کی ایک قسم منام یعنی نیند اور دوسری قسم موت ہے :۔ لفظ توفی کی تشریح آیۃ مبارکہ (آیت ) ” یعسی انی متوفیک “۔ اور سورة انعام میں گزر چکی۔ آیت کے مضمون نے یہ واضح کردیا کہ حالت نوم اور خواب میں حواس وادراک کا قبض کرلینا بھی تو فی ہے، جیسے دوسرے موقع پر ارشاد ہے (آیت) ” وھو الذی یتوفکم بالیل ویعلم ماجرحتم بالنھار “۔ اس لیے توفی کے معنی صرف موت ہی سمجھنا نہ دلالت لغت کے لحاظ سے صحیح ہے اور نہ قرآنی تعبیرات اور تصریحات کی رو سے درست ہے۔ علامہ آلوسی (رح) نے تفسیر روح المعانی میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اس کی تفسیر میں یہ ذکر فرمایا، ابن آدم میں نفس اور روح ہے جن دونوں کے درمیان سورج کی شعاع کی طرح ایک چمک حائل ہے نفس کے ذریعہ فہم تمیز اور احساس کا سلسلہ رہتا ہے اور روح سے حیات و حرکت کا تعلق قائم رہتا ہے تو موت کے وقت روح اور نفس دونوں قبض کرلیے جاتے ہیں جس کے بعد حیات و حرکت کا بھی سلسلہ ختم ہوجاتا ہے، لیکن نیند کے وقت صرف نفس قبض کیا جاتا ہے جس سے عقل وادراک اور تمیز کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے (روح المعانی ج 24 ص 8) یہی وہ چیز ہے جو آنحضرت ﷺ نے لیلۃ التعریس میں فرمائی یعنی جس رات سفر غزوہ میں راستہ میں آرام فرمانے کے لیے لیٹے تو آنکھ نہ کھلی تاآنکھ تاآنکہ سورج نکل آیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا ”۔ ان اللہ تعالیٰ قبض ارواحکم حین شاء وردھا الیکم حین شاء (صحیح بخاری، سنن نسائی) اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ ” ویرسلھا ایھا الناس ان ھذہ ارواح عاریۃ فی العباد فیقبضھا اللہ اذا شآء ویرسلھا اذا شآء۔ سلیم بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز فارق اعظم ؓ نے فرمایا کہ تعجب کی بات ہے کہ بعض شخص خواب دیکھتا ہے اور اس کے دل پر اس کا خطرہ بھی نہیں گزرا ہوتا پھر وہ خواب ہوبہو پورا واقع ہوتا ہے اور بعض شخص خواب دیکھتا ہے وہ غلط بلکہ کالعدم ہوتا ہے، حضرت علی مرتضی ؓ نے فرمایا اے امیر ال مومنین اس کی وجہ میں عرض کرتا ہوں، اللہ فرماتا ہے، (آیت ) ” اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا فیمسک التی قضی علیھا الموت ویرسل الاخری الی اجل مسمی “۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ روحین قبض کرتا ہے پس جو روحیں آسمان پر جا کر کچھ دیکھ آتی ہیں وہ حق ہوتا ہے اور وہ رؤیائے صادقہ ہے اور جو آسمان پر کچھ نہیں دیکھتیں بلکہ جب اجساد کی طرف واپس آتی ہیں تو اس حالت میں کہ جب وہ واپس ہوتی ہیں تو شیاطین انہیں کچھ القاء کرتے ہیں، وہ رؤیائے کا ذبہ ہے۔ حضرت عمر ؓ اس جواب سے بہت خوش ہوئے (روح المعانی ج 24۔ ازالۃ الخفاء ص 586)
Top