Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 142
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ١ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى١ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ : بیشک منافق يُخٰدِعُوْنَ : دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَھُوَ : اور وہ خَادِعُھُمْ : انہیں دھوکہ دے گا وَاِذَا : اور جب قَامُوْٓا : کھڑے ہوں اِلَى : طرف (کو) الصَّلٰوةِ : نماز قَامُوْا كُسَالٰى : کھڑے ہوں سستی سے يُرَآءُوْنَ : وہ دکھاتے ہیں النَّاسَ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَذْكُرُوْنَ : یاد کرتے اللّٰهَ : اللہ اِلَّا قَلِيْلًا : مگر بہت کم
بیشک منافقین تو اللہ سے چال چل رہے ہیں حالانکہ اللہ انہی کی چالوں کو ان پر الٹ رہا ہے،371 ۔ اور یہ لوگ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں (صرف) لوگوں کو دکھاتے ہیں، اور اللہ کی یاد کچھ یوں ہی سی کرتے ہیں،372 ۔
371 ۔ (انکی چالوں کو ناکام دیکھ کر، انکی چالوں کی سزا ان کو دے دے کر) (آیت) ” یخدعون اللہ “۔ یعنی اپنے اسلام کا جھوٹا اقرار کرکے اللہ تک کو دھوکا دینا چاہتے ہیں اور اپنے حمق سے یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ جس طرح دنیا میں ان کے ساتھ معاملہ ہورہا ہے، اسی طرح آخرت میں بھی ہوگا (آیت) ” وھو خادعھم “ خداع کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے تو اس سے مراد مجازات خداع ہوتی ہے۔ ال خداع من اللہ مجازاتھم علی خدا عھم اولیاء ہ ورسلہ (قرطبی) سمی الجزاء علی العمل باسمہ علی مجاوزۃ الکلام (جصاص) ای یجازیھم بالعقاب علی خدا عھم (کبیر) ای ھو الذی یستدرجھم فی طغیانھم وضلاتھم ویخذلھم عن الحق والوصول الیہ فی الدنیا وکذلک یوم القیمۃ (ابن کثیر) 372 ۔ یعنی یہ منافقین اول تو نماز پڑھتے ہی کہاں ہیں۔ جب مسلمانوں کے مجمع میں شرما شرمی پڑھنا ہی پڑی، تو صرف ہئیت ظاہری کے لحاظ سے کچھ دیر اٹھک بیٹھک سی کرلی (آیت) ” قاموا کسالی “۔ عبادت میں نشاط، مستعدی اور چستی تو صرف ایمان و اعتقاد کی قوت سے پیدا ہوتی ہے۔ جب سرے سے یہی مفقود ہے تو ظاہر ہے کہ کاہلی اور بدہمتی کیسے نہ پیدا ہوتی۔ یہاں تو مقصود تمام ترظاہرداری تھی، خلقت کی نظر میں اپنے کو مسلمان ظاہر کرنا، (آیت) ” الا قلیلا “ عارفین نے کہا ہے کہ یہ عمل قلیل ہی اگر اللہ کے لئے ہوتا تو اللہ اسے کثیر ہی قرار دیتا۔ قال الحسن لوکان ذلک القلیل اللہ تعالیٰ لکان کثیرا (مدارک) انما سماہ قلیلا لانہ لغیر وجہہ فھو قلیل فی المعنی وان کثر الفعل منھم (جصاص) (آیت) ” یرآء ون الناس “ محض لوگوں کے دکھاوے کو، تاکہ یہ بھی مسلمان ہی سمجھے جائیں اور ان کے ساتھ بھی مسلمانوں ہی کی سی مراعات ہوتی رہے۔ ریا کے معنی ہیں کسی اچھی چیز کو دکھاوے کیلئے اختیار کرنا نہ کہ حکم الہی کی تعمیل میں۔ الریاء اظھار الجمیل لیراہ الناس لالا تباع امر اللہ (قرطبی) (آیت) ” اذا قاموا الی الصلوۃ “ جب نماز جیسے اہم ترین رکن اسلام کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو دوسری عبادتوں کے ساتھ جو معاملہ ہوگا ظاہر ہی ہے۔ نماز کی تصریح خصوصیت کے ساتھ اس لئے کی گئی ہے کہ اعمال میں نماز ہی ایمان واسلام کا ظاہری معیار ہے۔ فقہاء نے کہا ہے کہ جس نماز ریائی کا یہاں ذکر ہے اور جو معصیت کے درجہ میں ہے اور جس نماز کا دہرانا لازم ہے وہ وہ ہے جو عقیدہ کے بغیر لوگوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لئے پڑھی جائے کہ اس سے اسے لوگ مسلمان سمجھنے لگیں، باقی جو نماز اس ارادہ سے پڑھی جائے کہ لوگ اسے دیکھ کر اس کے مومن اور مقبول الشھادۃ ہونے کی اور اس کے جواز امانت کی شہادت دیں تو ایسی نماز اس وعید کے تحت میں نہیں آتی۔ یعنی انھم یفعلونھا لیراھا الناس وھم یشھدو نھا لغوافھذا ھو الریاء والشرک فاما ان صلاھا لیراھا الناس یعنی ویرونہ فیھا فیشھدون لہ بالایمان فلیس ذلک الریاء المنھی عنہ وکذلک لوارادبھا طلب المنزلۃ والظھور لقبول الشھادۃ وجواز الامانۃ لم یکن علیہ حرج وانما الریاء ولمعصیۃ ان یظھرھا صیدا للدنیا وطریقا الی الاکل بھا فھذہ نیۃ لاتجزی علیہ الاعادۃ (ابن عربی)
Top