Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 142
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ١ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى١ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ : بیشک منافق يُخٰدِعُوْنَ : دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَھُوَ : اور وہ خَادِعُھُمْ : انہیں دھوکہ دے گا وَاِذَا : اور جب قَامُوْٓا : کھڑے ہوں اِلَى : طرف (کو) الصَّلٰوةِ : نماز قَامُوْا كُسَالٰى : کھڑے ہوں سستی سے يُرَآءُوْنَ : وہ دکھاتے ہیں النَّاسَ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَذْكُرُوْنَ : یاد کرتے اللّٰهَ : اللہ اِلَّا قَلِيْلًا : مگر بہت کم
منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک) خدا کو دھوکا دیتے ہیں (یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے) وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر (صرف) لوگوں کے دکھانے کو اور خدا کی یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم
ان المنفقین یخادعون اللہ وہو خادعہم . بلاشبہ منافق اللہ سے چالبازی کرتے ہیں اور اللہ چال بازی کی سزا ان کو دینے والا ہے۔ اللہ کو دھوکہ دینا اور اللہ کا منافقوں کو دھوکہ دینا اس کی تحقیق سورة بقرہ کی ابتدائی آیات میں کردی گئی ہے۔ واذا قاموا الی الصلوۃ قاموا کسالی . اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں یعنی مسلمانوں کے ساتھ۔ تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں جیسے کوئی جبریہ کھڑا ہو اس طرح یہ ناگواری کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں نہ ثواب کی امید رکھتے ہیں نہ نماز کو ترک کرنے پر عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یرآء ون الناس . لوگوں کو (اپنی نماز) دکھاتے ہیں تاکہ لوگ ان کو مؤمن خیال کریں۔ ولا یذکرون اللہ الا قلیلا اور اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر بہت مختصر۔ یا بہت تھوڑے وقت۔ ذکر سے مراد نماز ہے۔ اس تقلیل کی علت یہ ہے کہ دکھاوٹ کرنے والا دکھاوٹ کے لئے جو کام کرتا ہے وہ دیکھنے والوں کے سامنے کرتا ہے اور ایساوقت بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ (1) [ ابو یعلی نے حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص لوگوں کے سامنے تو نماز اچھی طرح پڑھے اور جب لوگ نہ دیکھتے ہوں تو نماز کو خراب پڑھے تو یہ نماز کو حقیر سمجھنا ہے ایسی نماز سے یہ شخص اپنے رب کی استہانت کرتا ہے۔] یراء ون اور کسالی دونوں قاموا کی ضمیر سے حال ہیں اور لا یذکرونکا عطف یراؤن پر ہے یا یراؤن کے فاعل سے لا یذکرونحال ہے۔
Top