Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 97
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِیْمَ كُنْتُمْ١ؕ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ قَالُوْۤا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِیْهَا١ؕ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًاۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو تَوَفّٰىھُمُ : ان کی جان نکالتے ہیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے ظَالِمِيْٓ : ظلم کرتے تھے اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں فِيْمَ : کس (حال) میں كُنْتُمْ : تم تھے قَالُوْا كُنَّا : وہ کہتے ہیں ہم تھے مُسْتَضْعَفِيْنَ : بےبس فِي : میں الْاَرْضِ : زمین (ملک) قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اَلَمْ تَكُنْ : کیا نہ تھی اَرْضُ : زمین اللّٰهِ : اللہ وَاسِعَةً : وسیع فَتُھَاجِرُوْا : پس تم ہجرت کر جاتے فِيْھَا : اس میں فَاُولٰٓئِكَ : سو یہ لوگ مَاْوٰىھُمْ : ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَسَآءَتْ : اور برا ہے مَصِيْرًا : پہنچے کی جگہ
بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے (جب) فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے،278 ۔ وہ بولیں گے ہم اس ملک میں بےبس تھے،279 ۔ فرشتے کہیں گے کہ اللہ کی سرزمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے ؟ تو یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے،280 ۔
278 ۔ یعنی دارالکفر دارالحرب میں رہ کر دین کے کن کن کاموں میں لگے ہوئے تھے کہ ہجرت کو نہ نکلے ؟ یہ تعریض ہے ان کے ہجرت نہ کرنے پر اور دارالحرب میں رہنے پر قانع وراضی ہوجانے پر۔ التوبیخ بانھم لم یکونوا فی شیء من الدین حیث قدروا علی المھاجرۃ ولم یھاجروا (کبیر) یہ وہ لوگ تھے جو مکہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اقرار کرچکے تھے لیکن جب ہجرت فرض ہوئی تو یہ مسلمان کے ساتھ نہ آئے، مکہ ہی میں رہ گئے۔ یہاں تک کہ پھر مشرکین کا ساتھ دینے لگے۔ المراد بالجماعۃ من اھل مکۃ کانوا قد اسلموا واظھروا للنبی ﷺ الایمان بہ فلما ھاجر النبی ﷺ اقاموا مع قومھم وفتن منھم جماعۃ فافتتنوا (قرطبی) نزلت فی اقوام من اھل مکۃ کانوا قداسلموا وامنوا باللہ وبرسولہ وتخلفوا عن الھجرۃ مع رسول اللہ ﷺ ھین ھاجر وعرض بعضھم علی الفتنۃ فافتتن (ابن جریر) نزلت فی قوم من المنافقین کانوا یظھرون الایمان لل مومنین خوفا اذا رجعوا الی قومھم اظھروا لھم الکفر ولایھاجرون الی المدینۃ (جصاص) یہ عتاب خود اس امر کی دلیل ہے کہ ہجرت اس وقت فرض عین تھی۔ ھذا یدل علی فرض الھجرۃ فی ذلک الوقت (جصاص) فتح مکہ کے بعد ہجرت واجب نہ رہی۔ حدیث نبوی میں ارشاد ہوا ہے۔ لاھجرۃ بعد الفتح۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ ہجرت کا وجوب اس وقت اس لئے تھا کہ منکرین کی ایذا اور مزاحمت سے محفوظ رہ کر مسلمان حکومت الہی کے اندر رہیں اور قانون الہی کا نفاذ اپنے ہاں کرسکیں۔ جب لشکر اسلام کو کافی قوت حاصل ہوگئی اور منکرین کی مزاحمت کا زور ٹوٹ گیا تو ہجرت بھی واجب نہ رہی لیکن پھر کہیں اور جب کبھی وہی وجوہ ہجرت پائے جانے لگیں گے ہجرت واجب ہوجائے گی (آیت) ” المآئکۃ “ َ صیغہ جمع ہے۔ مراد ہیں ملک الموت اور ان کے انصار۔ المراد ملک الموت واعوانہ (بحر) لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ تنہا ملک الموت مراد ہے اور صیغہ جمع ان کے لیے ان کی عظمت کے اظہار کے لیے لایا گیا ہے۔ المآئکۃ ھنا قیل ملک الموت ھو من باب اطلاق الجمع علی الواحد تفخیمالہ وتعظیما لشانہ ھذا قول الجمھور (بحر) اور واحد پر لفظ جمع کا اطلاق محاورۂ عرب میں عام ہے۔ والعرب قد تخاطب الواحد بلفظ الجمع (معالم) مفسر تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اب تک ذکر جہاد کا تھا۔ جس کا خلاصہ ہے شرکفار کا دفع عام۔ اب ذکر ہجرت کا شروع ہورہا ہے۔ جس کا ماحصل ہے شرکفار کا دفع خاص۔ پہلا حکم اجتماعی تھا اور یہ دوسرا انفرادی ہے۔ دونوں میں غرض مشترک اقامت دین ہے۔ 279 ۔ یعنی ہم اپنے ملک میں محض مغلوب اور بےبس تھے۔ احکام دین پر عمل کرنا ہمارے بس میں نہ تھا۔ اس لئے ترک فرائض میں معذور رہے۔ 280 ۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ جب ایک ملک میں رہ کر فرائض دین پوری طرح نہ ادا ہوسکتے ہوں اور یہ معلوم ہو کہ کوئی دوسرا ملک ہے جہاں فرائض دین ادا ہوسکتے ہیں تو پہلے سے دوسرے ملک کی طرف ہجرت واجب ہوجاتی ہے۔ والایۃ تدل علی ان من لم یمکن اقامۃ دینہ فی بلدۃ کما یجب وعلم انہ یمکن من اقامتہ فی غیرہ حقت علیہ المھاجرۃ (مدارک) ھذا یدل علی الخروج من ارض الشرک الی ای ارض کانت من ارض الاسلام (جصاص)
Top