Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 97
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِیْمَ كُنْتُمْ١ؕ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ قَالُوْۤا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِیْهَا١ؕ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًاۙ
اِنَّ
: بیشک
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
تَوَفّٰىھُمُ
: ان کی جان نکالتے ہیں
الْمَلٰٓئِكَةُ
: فرشتے
ظَالِمِيْٓ
: ظلم کرتے تھے
اَنْفُسِهِمْ
: اپنی جانیں
قَالُوْا
: وہ کہتے ہیں
فِيْمَ
: کس (حال) میں
كُنْتُمْ
: تم تھے
قَالُوْا كُنَّا
: وہ کہتے ہیں ہم تھے
مُسْتَضْعَفِيْنَ
: بےبس
فِي
: میں
الْاَرْضِ
: زمین (ملک)
قَالُوْٓا
: وہ کہتے ہیں
اَلَمْ تَكُنْ
: کیا نہ تھی
اَرْضُ
: زمین
اللّٰهِ
: اللہ
وَاسِعَةً
: وسیع
فَتُھَاجِرُوْا
: پس تم ہجرت کر جاتے
فِيْھَا
: اس میں
فَاُولٰٓئِكَ
: سو یہ لوگ
مَاْوٰىھُمْ
: ان کا ٹھکانہ
جَهَنَّمُ
: جہنم
وَسَآءَتْ
: اور برا ہے
مَصِيْرًا
: پہنچے کی جگہ
(بےشک جن لوگوں کی فرشتے جان قبض کریں گے اس حال میں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہوں گے ‘ وہ ان سے پوچھیں گے کہ تم کس حال میں پڑے رہے ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم زمین میں بےبس تھے۔ وہ کہیں گے کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ ط قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ ط قَالُوْٓا اَلمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیہَا ط فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ ط وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا لا اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّلَایَہْتَدُوْنَ سَبِیْلًا لا فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَعَنْہُمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا ” بیشک جن لوگوں کی فرشتے جان قبض کریں گے اس حال میں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہوں گے ‘ وہ ان سے پوچھیں گے کہ تم کس حال میں پڑے رہے ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم زمین میں بےبس تھے۔ وہ کہیں گے کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ ہاں وہ بےبس مرد اور عورتیں اور بچے جو نہ تو کوئی تدبیر کرسکتے تھے اور نہ کوئی راہ پاسکتے تھے۔ بعید نہیں کہ اللہ انھیں معاف کر دے۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگذر کرنے والا ہے۔ “ (النسآء : 97 تا 99) تمام غیر معذور مسلمانوں کو ہجرت کا حکم ترغیب اور ترہیب کے ذریعے اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کو جو اسلام لانے کے باوجود کسی شرعی مجبوری کے نہ ہوتے ہوئے بھی ہجرت کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے آخری دفعہ ہجرت پر اکسایا گیا ہے۔ ترغیب بھی دی گئی ہے اور ترہیب سے بھی کام لیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ کو پڑھتے ہوئے آدمی کا دل لرزتا ہے اور اگر ایمان کی کچھ بھی رمق باقی ہو تو چند باتیں اس سے بڑی آسانی سے سمجھ میں آتی ہیں۔ سب سے بڑی بات جس پر زور معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی ایک کافر کی زندگی کی طرح صرف زندگی کی آسائشوں کے حاصل کرنے کا نام نہیں۔ حیوان کی طرح کھانے پینے اور کسی بھٹ میں زندگی گزاردینے اور بچے پیدا کرنے اور پالنے کا نام نہیں۔ یہ اگرچہ حیوانی ضرورتیں ہیں جو انسان کے ساتھ بھی لاحق ہیں۔ لیکن ایک مسلمان کی زندگی ان ضرورتوں کے حصول کے بعد مقاصد پورا کرنے کی زندگی ہے۔ اللہ نے جو سب سے بڑا فرض ایک مسلمان پر عائد کیا ہے وہ یہ ہے کہ اسے زندگی گزارنے کے جو آداب سکھائے گئے ہیں اور اس سلسلے میں جن فرائض و واجبات کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی زندگی کی جو منزل ٹھہرائی گئی ہے انہی مقاصد کا حصول اور انہی کا عکاس طرز زندگی اور اسی منزل کی طرف مسلسل رواں دواں رہنے کی کوشش اور خواہش وہ زندگی ہے جس کا ایک مسلمان کو مکلف بنایا گیا ہے۔ اگر اسے ایسا وطن میسر ہے جس میں وہ اسلامی آداب کے مطابق اسلامی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے پوری اسلامی زندگی گزارنے پر قادر ہے تو پھر تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں لگا رہنا چاہیے ‘ لیکن اگر وہ کسی ایسے وطن میں رہتا ہے جہاں اس کے لیے اسلامی زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنا ممکن نہیں تو اب اس کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اسلام کو اس سرزمین پر غالب کرنے اور نظام کفر کو نظام اسلام میں تبدیل کرنے کی امکانی حد تک جدوجہد کرتا رہے جس طرح انبیاء (علیہم السلام) اور ان پر ایمان لانے والے اپنی افرادی کمی اور مالی و سیاسی بےبسی کے باوجود ہرحال میں کرتے رہے۔ اس جدوجہد کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ اسے اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ کامیابی نصیب ہوجائے تو اللہ کا انعام ہے اور اگر کامیابی نہ ملے اسی راستے میں زندگی کھپا دینا یا اس مقصد پر زندگی قربان کردینا اس کا مقصد ہونا چاہیے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اس وطن کو چھوڑ کر ایسے وطن میں جانے کی کوشش کرے جہاں اسے پوری اسلامی زندگی کے امکانات نظر آتے ہوں اور وہ یہ سمجھتا ہو کہ وہاں میں اسلامی فرائض کی ادائیگی کرسکتا ہوں۔ اپنے وطن سے نکل کر محض غلبہ دین اور اللہ کی رضا کی خاطر ایک ایسی جگہ کو وطن بنانا جس میں اللہ کا دین غالب ہو اور اسلامی زندگی کے تقاضے پورے کیے جاسکتے ہوں اسی کو ہجرت کہتے ہیں۔ جو شخص بھی ہجرت کرسکتا ہو یعنی اس کے پاس اتنے وسائل میسر ہیں کہ وہ وطن سے نکلنے اور دارالسلام پہنچنے پر قادر ہے لیکن وہ پھر بھی ہجرت نہ کرے محض وطن کی محبت اور اپنے مال و دولت کی ہوس اسے نکلنے کی اجازت نہ دے اور وہ اسی کو بےبسی سمجھ کر اپنے وطن میں قیام پذیر رہے تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں یہاں فرمایا گیا ہے کہ جب فرشتے ان کی روح قبض کریں گے تو وہ ان سے پوچھیں گے کہ تمہاری زندگی کا مقصد کھانا پینا تو نہیں تھا بلکہ اسلامی زندگی گذارنا تھا اور اس کے امکانات تمہارے وطن میں بالکل نہ تھے تو پھر تم یہاں پڑے کیا کرتے رہے ہو ؟ تم نے یہاں رہ کر اپنی زندگی پر ظلم کیا ہے کیونکہ زندگی کا مقصد یہ ہے کہ اسے اللہ کے احکام کے مطابق گذارا جائے اور اسلامی زندگی کے ایک ایک تقاضے کو پورا کیا جائے۔ لیکن تم نے چھپ چھپ کر نمازیں پڑھنے کو ہی اسلامی زندگی سمجھ لیا اور زندگی اس طرح گزاری کہ جس پر نظام کفر کا غلبہ تھا۔ یہ وہ ظلم ہے جو تم نے اپنے اوپر ڈھایا کہ تمہیں اللہ نے ایک دین دے کر دنیا پر غالب آنے کا رستہ دکھایا لیکن تم نے کفر کے سائے میں سانس لینے اور چھپ کر نماز پڑھنے کو اسلامی زندگی سمجھ لیا۔ متحدہ ہندوستان میں بعض لوگ یہی سمجھتے تھے کہ ہماری مسجدیں ہیں ‘ بزرگوں کے مزار ہیں ‘ مدارس ہیں ‘ ہمیں نمازیں پڑھنے کی اجازت ہے اور ہم کس بات کی آزادی چاہتے ہیں تو اقبال نے کہا تھا ؎ ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت بےچارہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد وہ جواب میں کہیں گے کہ ہم اپنے وطن میں بڑے بےبس تھے۔ فرشتے ان کی بات کو ٹوکتے ہوئے کہیں گے کہ ہم تمہاری بےبسی کو سمجھتے ہیں۔ تم اپنے دنیوی مفادات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے اور اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہو کر تم دارالسلام جانے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ تمہاری بےبسی ہوس کی بےبسی تھی۔ تم دنیوی فوائد سے دستبردار ہونے کو بےبسی کا نام دیتے ہو اور کنویں کے مینڈک کی طرح تم اپنے وطن اور اپنے گھر سے باہر دیکھنے کی ہمت سے محروم ہو ‘ کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے۔ تمہارے سامنے مدینہ دارالسلام کے طور پر موجود تھا ‘ اس نے اپنی آغوش تمہارے لیے کھول رکھی تھی۔ لیکن اگر کسی دور میں دارالسلام نہ بھی ہو تو کیا زمین میں کوئی پہاڑ یا جنگل نہیں جہاں تم درختوں کے پتے کھا کے اور بکریوں کا دودھ پی کے زندگی گزار سکو۔ لیکن اللہ کے احکام کی تعمیل کی تمہیں آزادی میسر ہو اور کفر کے احکام کی اطاعت سے تم بچے رہو۔ یہ صحیح ہے کہ جس طرح آنحضرت ﷺ نے ایمان لانے والوں کے لیے ہجرت کو فرض قرار دیا تھا اور اسے ایمان کی علامت بنادیا تھا اور جس نے ہجرت کی استطاعت کے باوجود ہجرت نہیں کی اسے منافق قرار دیا گیا۔ آج یقینا یہ صورت حال نہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اپنا وطن چھوڑ کر مدینے کی اسلامی ریاست کی طرف ہجرت کرنا بذات خود تو کوئی مقصد نہ تھا ‘ اس کی اصل علت تو یہ تھی کہ وہاں اسلامی نظام زندگی کو بروئے کار نہیں لایا جاسکتا تھا۔ کفر کا شکنجہ مسلمانوں کو اس طرح جکڑے ہوئے تھا کہ انفرادی طور پر بھی چھپ چھپ کر اسلامی احکام پر عمل کیا جا رہا تھا۔ اور جہاں تک اجتماعی زندگی کا تعلق ہے اس میں تو اسلامی احکام کو بروئے کار لانے کا تصور بھی مشکل تھا۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا تاکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلامی احکام کے مطابق گزارنے کی آزادی ہو اور اسلامی احکام کے مطابق اجتماعی ادارے وجود میں لائے جائیں اور ایک ہمہ گیر نظام زندگی جو اسلام نے عطا کیا تھا اسے بلا کم وکاست نافذ کیا جائے۔ یہ وہ علت ہے جو ہجرت کی فرضیت کا باعث بنی۔ آج اگر کسی ملک میں مسلمان آنحضرت ﷺ کے زمانے کے مسلمانوں کی صورت حال سے دوچار ہوں اور انھیں اسلامی زندگی گزارنے کے لیے ایک آزاد وطن کی ضرورت محسوس ہو تو ایسی صورت میں مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک آزاد ملک کے حصول کے لیے کوشش کریں اور وہاں اسلامی زندگی کو پوری طرح بروئے کار لانے کے لیے اسلامی نظام کو نافذ کریں۔ اسی مقصد کی خاطر ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی اور اسی مقصد کے لیے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ رہی یہ بات کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا ” لاہجرۃ بعد الفتح “ (یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے) یہ حدیث کوئی دائمی حکم نہیں ‘ بلکہ اس وقت کے حالات کے تناظر میں آپ ﷺ نے ایسا ارشاد فرمایا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ فتح مکہ کے بعد عرب میں کفر کا زور ٹوٹ گیا اور قریب قریب پورا ملک اسلام کے زیر نگیں آگیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب ہجرت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ لیکن اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے تمام حالات میں قیامت تک کے لیے ہجرت کی فرضیت منسوخ ہوگئی ہے۔ جن لوگوں نے اپنے لیے ” مستضعفین “ کا لفظ محض بہانہ سازی کے لیے اختیار کیا تھا انھیں سخت سرزنش کی گئی اور ان کے انجام کے بارے میں فرمایا کہ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔ اندازہ فرمایئے کہ یہ لوگ کلمہ گو ہیں ‘ نمازیں پڑھتے ہیں ‘ ممکن ہے اور بھی بھلے کام کرتے ہوں لیکن جرم صرف یہ تھا کہ انھوں نے اسلام کی بالا دستی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا۔ نظام کفر سے پوری طرح ناطہ توڑ کر اپنے آپ کو نظام اسلام سے وابستہ نہیں کیا۔ دنیا کی آسائشوں اور راحتوں کو اپنا مقصد بنایا اور اللہ کے دین کے لیے دنیا کو قربان کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں پھینک دیے گئے۔ کاش آج مسلمان اس بات پر غور کریں کہ ہم ساٹھ سے زیادہ اپنے آزاد ممالک رکھتے ہیں اور کسی ایک مسلمان ملک میں بھی اسلام کا نظام زندگی نافذ نہیں۔ انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی کے ایک ایک گوشے تک نظام کفر کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ لیکن ہمیں اس سے کبھی تشویش نہیں ہوئی۔ ہم ملکی وسائل کی کمیابی کا رونا روتے ہیں غربت بڑھ جانے پر دہائی دیتے ہیں ‘ ہمارا معیارِ زندگی اتنا نہیں بڑھ پا رہا جس کی ہم توقع کرتے ہیں اس سے ہمیں شدید شکایت ہے۔ لیکن وہ غلبہ دین اور اسلامی نظام جو ایک مسلمان کی زندگی کا اصل ہدف اور مقصد ہے اس کا ایک ایک تسمہ ٹوٹ رہا ہے ‘ ایک ایک تقاضا پامال ہو رہا ہے ‘ ہمیں اس سلسلے میں کوئی تشویش نہیں ہماری غالب اکثریت اس حوالے سے بالکل بےفکر ہے ‘ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کل کو ہمارا انجام کیا ہونے والا ہے۔ اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْن َ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّلَا یَہْتَدُوْنَ سَبِیْلًا سے ان حقیقی مستضعفین کا ذکر کیا جا رہا ہے جو واقعتا بےبس ہیں۔ جن میں مرد بھی ہیں ‘ عورتیں بھی ہیں ‘ بچے بھی ہیں۔ وہ ایسی بےبسی کی زندگی گزار رہے ہیں کہ کوشش اور خواہش کے باوجود ہجرت کے لیے کوئی راستہ نہیں پاتے ‘ انھیں کوئی تدبیر نہیں سوجھتی ‘ نظام کفر کے شکنجے میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ انھیں آواز نکالنے کی بھی ہمت نہیں ‘ اللہ کی نگاہ میں یہ لوگ واقعی بےبس ہیں اور ان کی بےبسی کا لحاظ کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ امید ہے اللہ تعالیٰ ان سے عفو و درگزر کا سلوک کرے گا۔ کیونکہ وہ ذات در گزر کرنے والی اور رحم کرنے والی ہے۔ وہ کسی شخص پر ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتی جس کو وہ اٹھا نہ سکے۔ یہ بےبس لوگ چونکہ ہجرت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لیے وہ کوشش اور خواہش کے باوجود ہجرت کرنے کے لیے کوئی راستہ نہ نکال سکے۔ اللہ جو رحیم و کریم ہونے کے ساتھ ساتھ عادل اور منصف بھی ہے۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ان کی بےبسی کے باوجود انھیں سزا دے۔ یہاں لفظ اگرچہ عسیٰ آیا ہے جو امید اور توقع کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن بادشاہ جب کسی کو امید دلاتے ہیں تو اس شخص کے گھر میں شادیانے بجنے لگتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بادشاہوں کے منہ پر امید کا لفظ دوسروں کی زبانوں پر یقین سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو سب سے بڑا ہے۔ اس کی طرف سے امید کا لفظ یقینا ایک ایساسہارا ہے جس سے بڑھ کر کوئی سہارا نہیں ہوسکتا۔
Top