Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 9
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ١۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا
وَلْيَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَوْ تَرَكُوْا : اگر چھوڑ جائیں مِنْ : سے خَلْفِھِمْ : اپنے پیچھے ذُرِّيَّةً : اولاد ضِعٰفًا : ناتواں خَافُوْا : انہیں فکر ہو عَلَيْھِمْ : ان کا فَلْيَتَّقُوا : پس چاہیے کہ وہ ڈریں اللّٰهَ : اللہ وَلْيَقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے پیچھے چھوٹے بچے چھوڑ جائیں تو انکی انہیں (کیسی) فکر رہے پس چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور بات پکی کہیں،25 ۔
25 ۔ (اور ان یتیموں کے حسب مصلحت) یعنی ان کی تعلیم، تادیب، تسلی، دلجوئی ہر پہلو کا لحاظ رہے، ذکروا بالنظر فی مصلحتھم (ابن عربی) القول السدید من الاوصیاء ان لایؤذوا الیتامی ویکلموھم کما یکلمون اولادھم بالادب الحسن والترحیب (کشاف) مفسرین کا ایک گروہ اس طرف بھی گیا ہے کہ یہ خطاب اولیاء کو نہیں بلکہ قریب الموت شخص کے عزیزوں قریبوں کو ہے کہ وہ اسے سمجھائیں کہ اسے حق صرف ایک ثلث میں صدقہ کا ہے اور باقی مال مقررہ وارثوں کے لیے چھوڑ جائے، (آیت) ” فلیتقوا اللہ “۔ اللہ سے ڈرتے رہیں کہ کہیں خود ان کے چھوٹے یتیم بچوں کے ساتھ یہ معاملہ پیش آکر نہ رہے۔ (آیت) ” ذریۃ ضعفا “۔ ضعیف سے مراد بوڑھی نہیں، کمزور اور کم سن اولاد ہے۔ ای اولادا صغارا (معالم۔ جلالین) (آیت) ” قولا سدیدا “۔ یعنی سچی اور صحیح بات جس میں کوئی پہلو شروفسادواتلاف حقوق کا نہ نکلتا ہو۔ ھوالعدل والحق الذی لا خلل فیہ ولا فساد فی رجحان بوارث او حرمان لذی قرابۃ (جصاص)
Top