Tafseer-e-Majidi - Al-Fath : 26
اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
اِذْ جَعَلَ : جب کی الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ قُلُوْبِهِمُ : اپنے دلوں میں الْحَمِيَّةَ : ضد حَمِيَّةَ : ضد الْجَاهِلِيَّةِ : زمانۂ جاہلیت فَاَنْزَلَ اللّٰهُ : تو اللہ نے اتاری سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسلی عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول پر وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومنوں پر وَاَلْزَمَهُمْ : اور ان پر لازم فرمادیا كَلِمَةَ : بات التَّقْوٰى : تقوی کی وَكَانُوْٓا : اور وہ تھے اَحَقَّ بِهَا : زیادہ حقدار اس کے وَاَهْلَهَا ۭ : اور اس کے اہل وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمًا : جاننے والا
اور وہ وقت بھی یاد کرو) جب (ان) کافروں نے اپنے دلوں میں عصبیت، عصبیت جاہلی کو جگہ دی لیکن اللہ نے اپنی طرف سے تحمل اپنے رسول اور مومنین کو عطا کیا،33۔ اور (اللہ نے) انہیں تقوی کی بات پر جمائے رکھا، اور وہ اس کے مستحق بھی ہیں اور اہل بھی اور اللہ تو ہر شے کا (پورا) علم رکھتا ہے،34۔
33۔ (اور اس سکینت الہی کا اثر یہ ہوا کہ مسلمان جوش میں آکر لڑ نہیں بیٹھے) مشرکین کی بےجا ضد اور مسلسل اشتعال انگیزی کا طبعی تقاضہ تو بالکل یہی تھا کہ مسلمان بھی لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتے۔ (آیت) ” اذ ..... الجاھلیۃ “۔ یعنی جب مشرکوں کی طرف سے بےدینی والی عصبیت کا اظہار ہونے لگا تھا۔ جب صلح نامہ مرتب ہونے لگا اور مسلمانوں کی طرف سے حضرت علی ؓ اس کی کتابت کرنے لگے تو مشرک گورنمنٹ کے نمائندوں نے اشعتال انگیزمطالبے اس قسم کے شروع کیے :۔ (1) معاہدہ پر بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھی جائے۔ (2) معاہدہ پر صرف محمد بن عبداللہ لکھا جائے۔ محمد رسول اللہ نہ لکھا جائے، وقس علی ھذا۔ رسول اللہ اس قسم کے سارے مطالبات کو منظور فرماتے چلے گئے۔ 34۔ (تو مسلمانوں کی ان کیفیات کا اسے مفصل ومکمل علم کیسے نہ ہوتا) (آیت) ” کلمۃ التقوی “۔ یہاں تقوی کی بات رسول کی اطاعت تھی، اور یہ اسی کا مقتضا تھا۔ جس سے پر جوش مسلمانوں نے اپنے کو قابو میں رکھا۔ (آیت) ” کانوا احق بھا “۔ اس احساس تقوی کا تعلق اسی دنیا سے ہے۔ یعنی مسلمانوں کے قلوب میں طلب حق ہے اور یہی انہیں اطاعت رسول پر جمائے ہوئے رہی۔ (آیت) ” واھلھا “۔ اس اہلیت تقوی کا تعلق عالم آخرت سے ہے۔ یعنی اس کا اجر وثواب انہیں آخرت میں ملے گا۔
Top