Tafseer-e-Majidi - Al-Hujuraat : 13
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ : بیشک ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ ذَكَرٍ : ایک مرد سے وَّاُنْثٰى : اور ایک عورت وَجَعَلْنٰكُمْ : اور بنایا تمہیں شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ : ذاتیں اور قبیلے لِتَعَارَفُوْا ۭ : تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو اِنَّ اَكْرَمَكُمْ : بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک اَتْقٰىكُمْ ۭ : تم میں سب سے بڑا پرہیزگار اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا خَبِيْرٌ : باخبر
اے لوگو ! ہم نے تم (سب) کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے،24۔ اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنادیا ہے کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو،25۔ بیشک تم میں سے پرہیزگار تر اللہ کے نزدیک معزز تر ہے،26۔ بیشک اللہ خوب جاننے والا ہے پورا خبردار ہے،27۔
24۔ یعنی آدم وحوا سے۔ اور اس لحاظ سے سارے انسان یکساں وہم سطح ہوئے۔ اے انکم متساو ون فی النسب (معالم) قال تعالیٰ نتیھا علی تساویھم فی البشریۃ (ابن کثیر) فجمیع الناس فی الشرف بالنسبۃ الطینیۃ الی ادم وحوا سواء (ابن کثیر) وحدت نوع انسانی، اسلام میں ایک نظریہ نہیں، ایک موکد حقیقت ہے، اس نے ان تمام جاہلی نظریات کی جڑ کاٹ دی، جو انسان کی مختلف نسلوں کو مختلف مورثوں کی اولاد سمجھتے ہیں اور ہندوستان کی ذات پات والی پیدائشی تفریق کے حق میں اس آیت کا سم ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ دل بذالک علی انہ لافضل لبعضھم علی بعض من جھت النسب، اذ کان جمیعا من اب وام واحدۃ (جصاص) ملاحظہ ہو تفسیر انگریزی نیز سورة النساء (پ 4) اور سورة الزمر (پ 23) کے حاشیے اسی مضمون سے متعلق۔ 25۔ (اس لئے مختلف قوموں میں اور پھر خاندانوں میں تقسیم بنیاد تفاخر کی نہیں ہوسکتی، بنیاد باہمی امتیاز و تعارف کی البتہ ہے) نسل پرستی، قوم پرستی، رنگ پرستی جس میں جاہلیت قدیم سے لے کر جاہلیت جدید تک ساری قومیں مبتلا رہی ہیں، ان پر پوری ضرب اس آیت نے لگا دی ہے۔ (آیت) ” خلقنکم۔ جعلنکم “۔ دونوں لفظوں سے صاف طور پر اشارہ اس طرف کردیا کہ یہ تو جو کچھ کیا، ہم نے کیا ہے، تمہارے امتیاز وافتخار کا اس میں کون سا پہلو ہے ؟ (آیت) ” شعوبا “۔ نوع انسانی کی پہلی اور بڑی تقسیم یعنی قومیں یا نسلیں۔ (آیت) ” قبآئل۔ قدیم انسان کی دوسری اور ضمنی تقسیم، یعنی کنبے اور قبیلے۔ 26۔ یعنی اللہ کے ہاں شرف، فضیلت ومقبولیت تمامتر ذاتی پرہیزگاری ہے، نہ کہ فخر نسلی وقومی وآبائی، نہ کسی کے برہمن اور چھتری ہونے میں اس کی عزت نہ کسی کے چمار پارسی ہریجن ہونے میں ذلت، اسلام نے انسانی آبادی کی تقسیم صرف دوہی طبقوں میں رکھی ہے متقی وغیر متقی، اس کے علاوہ اس کے ہاں حقیقی تقسیم نہ امیر و غریب کی ہے نہ نسلی شریف ونسلی رذیل کی، نہ گورے اور کالے کی بلکہ صرف متقی وغیر متقی کی۔ فابان ان الفضیلۃ والرفعۃ انما تستحق بتقوی اللہ وطاعتہ (جصاص) ملاحظہ ہو تفسیر انگریزی۔ 27۔ (اور اس پر روشن ہے کہ کون واقعی کس حد تک پرہیز گا رہے۔ ) سو یہ تقوی بھی دنیا میں کسی کی شیخی، تعلی وتفاخر کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
Top