Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 77
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لَا تَغْلُوْا : غلو (مبالغہ) نہ کرو فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : اپنا دین غَيْرَ الْحَقِّ : ناحق وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْٓا : نہ پیروی کرو اَهْوَآءَ : خواہشات قَوْمٍ : وہ لوگ قَدْ ضَلُّوْا : گمراہ ہوچکے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَضَلُّوْا : اور انہوں نے گمراہ کیا كَثِيْرًا : بہت سے وَّضَلُّوْا : اور بھٹک گئے عَنْ : سے سَوَآءِ : سیدھا السَّبِيْلِ : راستہ
آپ کہہ دیجیئے کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو،258 ۔ اور ان لوگوں کی من مانی باتوں پر نہ چلو،259 ۔ جو پہلے (خود بھی) گمراہ ہوچکے ہیں اور بہتوں کو گمراہ کرچکے ہیں اور راہ راست سے (بہت) بھٹک چکے ہیں،260 ۔
258 ۔ (بلکہ اپنے اصل دین اور عقائد حق پر قائم رہو) (آیت) ” اھل الکتب “۔ سے یہاں مراد مسیحی ہیں۔ اور (آیت) ” الکتب “ سے انجیل۔ یعنی بالکتب الانجیل (ابن جریر) قل یا محمد لھؤلاء الغالیۃ من النصاری فی المسیح (ابن جریر) قیل الخطاب للنصاری خاصۃ (بیضاوی) (آیت) ” لا تغلوا فی دینکم “۔ ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 846 ۔ 853 سورة نساء۔ 259 ۔ اس میں صاف اشارہ اس حقیقت کا آگیا کہ مسیحیوں کی گمراہیاں اور بدعقیدگیاں کسی اور کجر اور گمراہ قوم کی ریس اور تقلید سے پیدا ہوئی ہیں۔ (آیت) ” اھوآء “۔ لغو وبے بنیاد خیالات، من گھڑت عقائد، خیالی ڈھکوسلے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں ان رسول کا ابطال ہے جو شریعت کے خلاف ہیں اگرچہ وہ منسوب مشائخ کی جانب ہوں، مشائخ اگر محقق ہیں تو ان کی طرف یا تو یہ نسبت ہی صحیح نہ ہوگی، اور یا پھر عذر صحیح پر انہیں محمول کیا جائے گا۔ 260 ۔ جو لوگ مسیحیت کی ابتدائی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں، اور خود فرنگیوں کی موجودہ Biblical Critcism سے پوری طرح سے واقف ہیں۔ وہ قرآن مجید کے اس بیان پر عش عش کرجائیں گے۔ چھٹی صدی عیسوی کا ایک عرب امی، لاکھ ذہین وباخبر ہو، ان اہم تاریخی حقائق پر نظر رکھ ہی کیسے سکتا تھا۔ تاوقتیکہ عالم الغیب والشھادۃ براہ راست اسے تعلیم نہیں دے رہا تھا۔ مصری شرک یونانیوں میں پوری طرح حلول کر آیا تھا، اور بڑے بڑے یونانی فلاسفر اسکندریہ کے مرکز ” عقلیت “ و ” روشن خیالی “ سے مرعوب ومتاثر تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم جب شروع شروع پھیلی تو انہی یونانیوں میں اکابر یہود (مثلا فایلو) پہلے ہی سے یونانیوں کے آگے گردن ڈال چکے، اور ان سے Logos وغیرہ کے عقائد اخذ کرچکے تھے۔ مسیحیوں نے ان تعلیمات کو بلاتامل قبول کرلیا، اور پھر پولوس (سینٹ پال) نے تو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مذہب اور تعلیمات کو تمامتر مسخ کرکے اسے یونانی شرک کی ایک شاخ ہی بنادیا۔ آخر میں رہی سہی کسر رومیوں کے مشرکانہ عقائد و خرافات نے پوری کردی، موجودہ مسیحی قوموں کے عقائد ورسوم کثرت سے مصری یونانی رومی شرک ہی کی صدائے باز گشت ہیں اور بس۔
Top