Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 120
وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ
وَذَرُوْا : چھوڑ دو ظَاهِرَ الْاِثْمِ : کھلا گناہ وَبَاطِنَهٗ : اور اس کا چھپا ہوا اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْسِبُوْنَ : کماتے (کرتے) ہیں الْاِثْمَ : گناہ سَيُجْزَوْنَ : عنقریب سزا پائیں گے بِمَا : اس کی جو كَانُوْا : تھے يَقْتَرِفُوْنَ : وہ برے کام کرتے
اور چھوڑ دو گناہ کے ظاہر کو (بھی) اور اس کے باطن کو (بھی) بیشک جو لوگ گناہ کما رہے ہیں انہیں عنقریب بدلہ مل جائے گا اس کا جو کچھ کہ وہ کرتے رہتے ہیں،175 ۔
175 ۔ (سو مکافات عمل سے غافل کوئی بھی نہ رہے) (آیت) ” سیجزون “۔ عنقریب یعنی قیامت میں بدلہ مل کررہے گا) ۔ (آیت) ” یکسبون۔ یقترفون “۔ ان سب الفاظ سے ثابت وظاہر ہے کہ گناہ بندہ کی اختیاری چیز ہے۔ ایسی چیز نہیں جو بندہ کے اختیار سے کچھ بھی باہر ہو۔ گوخود یہ اختیار اللہ ہی کی عطا کی ہوئی ایک قوت ہے۔ (آیت) ” ذروا ظاھرالاثم و باطنہ “۔ کے ظاہروباطن سے مراد کیا ہے ؟ جن دونوں کے چھوڑ دینے کا یکساں حکم ہے ؟ بعض نے کہا ہے کہ گناہ کے ظاہر سے مراد اس کی عملی شکل اور اس کے باطن سے مراد غلط اعتقاد، اعتقادی گناہ ہے۔ الظاھر ماکان عملا بالبدن ممانھی اللہ عنہ و باطنہ ما عقد بالقلب من مخالفۃ امر اللہ ما امرونھی (قرطبی) قال مجاہد ظاھرہ ما یعملہ الانسان بالحوارح من الذنوب و باطنہ ما ینویہ ویقصدہ بقلبہ (معالم) قیل ما عملتم وما نویتم (کبیر) ای قلیلہ وکثیرہ (ابن جریر، عن قتادہ) لیکن بہترین تفسیر یہ ہے کہ ظاھرالاثم سے وہ گناہ مراد لیے جائیں جو خلق کی نظر کے سامنے علانیہ کیے جائیں اور باطن الاثم سے مراد وہ گناہ سمجھے جائیں جو خلق کی نظر سے چھپا کر پوشیدہ کیے جاتے ہیں۔ جاہلی تہذیبوں میں فسق ومعصیت کی بہت سی صورتیں ایسی ہیں کہ بجائے خود وہ ذرا بھی معیوب نہیں۔ صرف ان کا کھل جانا گناہ ہے۔ یونان قدیم میں چوری بجائے خود کوئی جرم نہ تھی، چوری کا کھل جانا جرم تھا۔ آج فرنگی تہذیب میں حرامکاری بجائے خود کوئی عیب نہیں، صرف اس کا منظر عام پر آجانا، عام رسوائی وتفضیح پیدا ہوجانا، اس کا public, Scandal. بن جانا بس صرف یہ جرم ہے۔ عرب کی جاہلی تہذیب میں بھی حرامکاری بجائے خود جائز تھی، صرف اس کا افشاء جرم تھا۔ یہ خصوصیت اسلام ہی کی ہے کہ اس نے پوشیدہ وعلانیہ ہر حرام کاری کو جرم ہی قرار دیا۔ کان اھل الجاھلیۃ یستترون بالزنا ویرون ذلک حلال ما کان سرا فحرم السر منہ والعلانیۃ ما ظھر منھا (ابن جریر عن الضحاک) قیل ھو ما کان علیہ الجاھلیۃ من الزنا الظاھر واتخاذ الحلال فی الباطن (قرطبی) قال الضحاک کان اھل الجاھلیۃ یرون اعلان الزنا اثما والا ستسرار بہ غیراثم (جصاص) و اکثر المفسرین علی ان ظاہر الاثم الاعلان بالزنا وھم اصحاب الرایات و باطنہ الاستسرار بہ وذلک ان العرب کانوا یحبون الزنا وکان الشریف منھم یتشرف فیسربہ وغیر الشریف الایالی بہ فیظھرہ (معالم) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ گناہ کی اس قرآنی تقسیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ گناہ جس طرح اعضاء وجوارح سے ہوتے ہیں اسی طرح قلب سے بھی ہوتے ہیں۔
Top