Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 251
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
اے نبی مومنین کو قتال پر آمادہ کیجیے،96 ۔ اگر تم میں سے بیس آدمی بھی ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے اس لئے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے،97 ۔
96 ۔ (خواہ وہ طبعا آمادہ ہوں یا نہ ہوں) (آیت) ” حرض “۔ کے لفظ سے اشارہ ادھر ہورہا ہے کہ مسلمان سب کے سب اور ہر وقت آمادہ قتال اور جنگجو نہ تھے جیسا کہ مسیحی مصنفین نے ایک الزام تراش رکھا ہے، بلکہ انہیں قتال پر آمادہ کرنے کی ضرورت تھی۔ (آیت) ” القتال “۔ واضح رہے کہ قرآن و شریعت نے اسلامی غزوات و جہاد کو قتال ہی سے تعبیر کیا ہے اور حرب کا لفظ جس کے ساتھ کید وخدع کی یادیں وابستہ ہیں، کافروں کی جنگ کے ساتھ مخصوص رکھا ہے۔ 97 ۔ (اور چونکہ سمجھ سے کام نہیں لیتے اس لیے کفر پر مصر ہیں اور اس لئے امداد غیبی سے محروم ہیں اور بہ آسانی مغلوب ہوجاتے ہیں) ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مائتین وان یکن منکم ماءۃ یغلبوا الفا من الذین کفروا اعداد کی یہ نسبت یاد دلانے سے مقصود یہ کہنا ہے کہ تم پر واجب ہے کہ اپنے سے دس گنے لشکر کے مقابلہ میں بھی پسپا نہ ہو۔ (آیت) ” ان یکن “۔ سے دونوں جملہ جو شروع ہوئے ہیں ان سے مراد یہاں کوئی خبر دینا یا پیشگوئی کرنا نہیں بلکہ مقصود حکم دنیا ہے کہ اپنے سے بڑی جمعیت کے مقابلہ میں بھی ثابت وقائم رہو اور گریز اختیار نہ کرو، قرار واجب ہے اور فرار حرام۔ عربی زبان اور بلاغت قرآنی کا یہ ایک عام اسلوب بیان ہے کہ زور وتاکید کے موقع پر حکم وجوبی کو خبر کی صورت میں بیان کردیا جاتا ہے۔ وان کان لفظہ لفظ الخبر فمعناہ الامر (جصاص) لیس المراد منہ الخبر بل المراد الامر (کبیر) شرط فی معنی الامر (بیضاوی) (آیت) ” قوم لا یفقھون “۔ فتح و غلبہ میں بڑا دخل اعتقاد صحیح وثبات قلب کو ہے اور یہ نعمتیں ایمان ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔ عشرون۔۔۔ مائتین۔ ماءۃ۔۔ الفا۔ بعض اہل تفسیر نے نہ نکتہ آفرینی بھی کی ہے کہ بجائے محض دس گناہ کہنے کے یہاں جو متعین بڑے بڑے اعداد ارشاد ہوئے ہیں اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ امر جہاد موقوف ہے جماعت وفوج پر، یہ نہیں کہ ایک ایک، دو دو آدمی بھی جہاد کے لئے کھڑے ہوجائیں۔
Top