Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 18
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ١ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ١ۙ۬ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
اِنَّ : بیشک عِدَّةَ : تعداد الشُّهُوْرِ : مہینے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک اثْنَا عَشَرَ : بارہ شَهْرًا : مہینے فِيْ : میں كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب يَوْمَ : جس دن خَلَقَ : اس نے پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین مِنْهَآ : ان سے (ان میں) اَرْبَعَةٌ : چار حُرُمٌ : حرمت والے ذٰلِكَ : یہ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ : سیدھا (درست) دین فَلَا تَظْلِمُوْا : پھر نہ ظلم کرو تم فِيْهِنَّ : ان میں اَنْفُسَكُمْ : اپنے اوپر وَقَاتِلُوا : اور لڑو الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں كَآفَّةً : سب کے سب كَمَا : جیسے يُقَاتِلُوْنَكُمْ : وہ تم سے لڑتے ہیں كَآفَّةً : سب کے سب وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
بیشک مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہی مہینہ ہیں کتاب الہی میں (اس روز سے) جس روز کہ اس نے آسمان اور زمین پیدا کئے،65 ۔ اور ان میں سے چار (مہینہ) حرمت والے ہیں،66 ۔ یہی دین مستقیم ہے سو تم ان (مہینوں) کے باب میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو،67 ۔ اور لڑو مشرکوں سے سب سے جیسا کہ وہ لڑتے ہیں تم سب سے اور جانے رہو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے،68 ۔
65 ۔ یعنی شریعت الہی میں معتبر قمری سنہ کے بارہ ہی مہینہ ہیں، نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم، اور یہ کچھ آج سے نہیں، روز آفرنیش سے، (آیت) ” فی کتب اللہ “۔ یعنی شریعت خداوندی میں، اے فی ما اثبتہ واوجبہ من حکمہ (مدارک) یالوح محفوظ میں، فی اللوح (مدارک) (آیت) ’ یوم خلق السموت الارض “۔ اس تصریح سے مقصود زور وتاکید پیدا کرنا ہے۔ والمقصود بیان ان ھذا الحکم حکم محکوم بہ من اول خلق العالم وذلک یدل علی المبالغۃ والتاکید (کبیرا) 66 ۔ اور وہ بھی متعین ومعروف یعنی محرم، رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ، یہ نہیں کہ اہل جاہلیت کی طرح اپنی وقتی مصلحتیں دیکھ کر جس مہینہ کو چاہا ادب والا قرار دیدیا۔ اور سال کے مہینہ جب چاہا بڑھا دیے۔ (آیت) ” حرم “۔ حرمت والے مہینہ وہ جن میں قتال ممنوع تھا۔ یہ توفقہی پہلو ہوا، باقی یہ مہینہ وہ ہیں جن میں طاعت مقبول تر اور معصیت قبیح تر قرار دی گئی ہے۔ معنی الحرم ان المعصیۃ فیھا اشد عقابا والطاعۃ فیھا اکثر ثوابا (کبیر) لایبعدان ان یعلم اللہ تعالیٰ ان وقوع الطاعۃ فی ھذہ الاوقات اکثر تاثیرا فی طھارۃ النفس ووقوع المعاصی فیھا اقوی تاثیرا فی خبث النفس وھذا غیر مستبعد عند الحکماء (کبیر) 67 ۔ (عادت جاہلیت کا اتباع اور دستور الہی سے انحراف کرکے) (آیت) ” ذلک الدین القیم “۔ یعنی مذہب کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ یہی ہے۔ اس کے خلاف روش اختیار کرنا بددینی ہے۔ لیکن دین کے معنی ” حساب “ کے بھی آئے ہیں۔ اس صورت میں مراد یہ ہوگی کہ سیدھا اور صحیح حساب یہی ہے گو ترجیح اسی پہلے معنی کو ہے۔ الدین قد یراد بہ الحساب فتفسیر الایۃ علی ھذا التقدیر ذلک الحساب المستقیم الصحیح (کبیر) اے الحساب الصحیح والعدد المستوفی۔۔۔ والاصوب عندی ان یکون الدین ھھنا علی اشھر وجوھہ اے ذلک الشرع والطاعۃ (قرطبی) (آیت) ” فیھن “۔ یہ ضمیر جمع مونث کس کی طرف ہے۔ ہوسکتا ہے کہ (آیت) ” اثنا عشرا شھرا “۔ کی جانب ہو یعنی ان بارہ مہینوں کے باب میں گڑبڑ کرکے اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ اے فلاتظلموا فی الشھور الاثنی عشر انفسکم (ابن عباس ؓ علی قول ابن عباس ؓ راجع الی جمیع الشھور (قرطبی) اور یہ بھی درست ہے کہ اربعۃ حرم کی جانب ہو، جیسا کہ اکثر مفسرین کا خیال ہے یعنی ان چاروں ادب والے مہینوں میں گڑبڑ کرکے گنہگار نہ بنو۔ قول الاکثرین ان الضمیرفی قولہ فیھن عائد الی الاربعۃ الحرم (کبیر) علی قول بعضھم راجع الی الشھر الحرم خاصۃ (قرطبی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ متبرک اوقات میں معصیت کی برائی شدید ترہوتی ہے اور اسی پر متبرک مقامات کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ تو وائے برحال ان لوگوں کے جو اولیاء صالحین کے مزارات ومقابر پر اور وہ بھی زمانہ عرس میں فجور وبدعات کا ارتکاب کیا کرتے ہیں۔ امام رازی (رح) نے حسب معمول اس پر تفصیل وتحقیق سے گفتگو کی ہے اور کہا ہے کہ عربوں کے ہاں تو حضرت ابراہیم واسمعیل (علیہما السلام) کے وقت سے سنہ قمری چلا آتا تھا،۔ جس میں ماہ حج کبھی کسی موسم میں پڑتا تھا کبھی کسی میں۔ لیکن عربوں نے دیکھا کہ اس سے تجارت وغیرہ میں نقصان ہوتا ہے تو انہوں نے مصالح دین کا خیال نہ کرکے اور ان پر مصالح دنیوی کو ترجیح دے کر یہود ونصاری سے حساب کبیسہ سیکھ لیا اور اپنے مہینوں میں کچھ کچھ روز کے بعد ایک مہینہ بڑھا کر حج وغیرہ کا زمانہ بہ حساب شمسی متعین کردیا اور یہ صریح مصالح شریعت میں دست اندازی ہے۔ متعدد علماء نے آیت سے یہ حکم بھی مستنبط کیا ہے کہ مسلمانوں پر اپنے معاملات و عبادات میں سنہ قمری عربی کی پابندی واجب ہے اور سنہ عجمی وسنہ رومی شمسی کی پابندی جائز نہیں،۔ قال اھل العلم الواجب علی المسلمین بحکم ھذہ الایۃ ان یعتبروا فی بیوعھم ومدد دیونھم واحوال زکوتھم وسائر احکامھم السنۃ العربیۃ بالاھلۃ ولایجوز لھم اعتبار السنۃ العجمیۃ والرومیۃ (کبیر) 68 ۔ (بہ لحاظ اپنی نصرت کے) مطلب یہ ہوا کہ مشرکوں یا ان کے سامان و جمعیت سے ڈرنا ہی کیا، ایمان وتقوی پر قائم رہو تو نصرت الہی تو تمہارے ہی ساتھ رہے گی، (آیت) ” المشرکین “۔ مراد مشرکین عرب ہیں۔ جزیہ ان کے حق میں نہ تھا، انہیں لازمی طور پر مسلمان ہی ہونا تھا۔ (آیت) ” کآفۃ “۔ یعنی ان سے ہر موسم میں، سال کے ہر مہینہ لڑسکتے ہو، جس طرح یہ تم سے لڑتے رہتے ہیں۔
Top