Maarif-ul-Quran (En) - Al-Baqara : 258
لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰى١ؔؕ وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهٗ لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ١ؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْحِسَابِ١ۙ۬ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ۠   ۧ
جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم قبول کیا تو ان کے لیے سرتا سر خوبی ہے جنہوں نے قبول نہیں کیا اگر کرہ ارضی کی تمام دولت ان کے اختیار میں آجائے اور اسے دوگنا کردیا جائے تو یہ لوگ اپنے بدلہ میں ضرور اسے بطور فدیہ کے دے دیں یہی لوگ ہیں جن کے لیے حساب کی سختی ہے اور ٹھکانا جہنم اور کیا ہی برا ٹھکانا ہے
جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم قبول کیا خوبی ان ہی کیلئے ہے 34 ؎ ” جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم قبول کیا تو ان کیلئے بھلائی ہی بھلای ہے “۔ حکم قبول کرنا کیا ہے ؟ ایک عمل ہے پھر عمل کا نتیجہ اس کے ساتھ لازم ہے اور یہ بھی اللہ کا حکم قبول کرنا فی صف نیکی ہے کو ین کہ اللہ کا حکم سراسر نیکی اور خوبی ہے ظاہر ہے جب عمل خوبی اور اچھائی ہے اور وہ بھی عنداللہ تو اس کا نتیجہ تو بہرحال خوبی اور آخرت بھی اس کی سنور گئی تو اس سے بڑھ کر اور کیا خوبی ہوگی ؟ ” جنہوں نے قبول نہیں کیا اگر کرہ ارض کی تمام دولت ان کے اختیار میں آجائے اور اسے دوگنا کردیا جائے تو یہ لوگ اپنے بدلہ میں ضرور اسے دیں گے تاکہ وہ بطور فدیہ دیں اور ہساب کی سکتی سے بچ جائیں۔ ” گویا جن لوگوں نے دنیوی زندگی میں اللہ کا ہکم قبول نہیں کیا ان کیلئے آخرت کی ناکامی تو لازم ہوگئی اور پھر دنیا اگر کسی کی بن بھی گئی جب آخرت تباہ و برباد ہوگئی تو یقینا وہ تباہ و برباد ہوگیا اور ناکامی اس کے حصے میں آئی۔ اب اس ناکامی سے بچنے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ فرض کرو اس کے قبضہ میں ساری دنیا کا مال و متاع ہے اور اس وقت جتنا اس کے پاس فرض کرلیا گیا ہے اتنا مزید بھی اس کو مل جائے اور سارا ملا کر چاہے گا دے دوں اور اس آخرت کی ناکامی سے بچ جائوں تو ایسا ممکن نہیں ہوگا اس لئے کہ اب وہ جہاں کھڑا یا جہاں پہنچ گیا ہے اس کو دارالجزاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے دارالعمل نہیں اور یہ مال دینا ظاہر ہے کہ سراسر عمل ہے جس کا تعلق بھی دارالعمل ہی سے ہے دارالجزاء میں تو اس کی جزاء ہوگی جس کو وہ خود دارالعمل میں خرچ کر گیا۔ اس سے ان لوگوں کا سارا بھرم کھل گیا جو مردوں کو پیچھے سے مال سپلائی کرنے کے دعویدار ہیں اور قوم کو اس گلط نظریہ پر لگا کر اپنے پیٹ کو دوزخ کی آگ سے دھڑا دھڑ بھر رہے ہیں اور عوام کا الانعام ہیں۔ کہ وہ اپنے مردوں کو بخشوانے کی خاطر ان کی جیبیں بھر رہے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سب تو خود غرض انسان ہیں آخرت کا لیٹر بکس مطلق نہیں اگر یقین نہیں آیا تو آیت کے اس حصہ کو بار بار پڑھو۔ والذین لم یستجیبوا لہ لو ان لھم ما فی الارض جمیعا و مثلہ معہلا قتلوا بہ اولئک لھم سواء الحساب (13 : 18) یہ مال جو تم مرنے والے کی نیت سے تیسرے ‘ چوتھے ‘ ساتویں ‘ دسویں اور چالیسویں میں خرچ کرتے ہو کیا سمجھ کر خرچ کرتے ہو ؟ اگر یہ سمجھ کر خرچ کرتے ہو کہ اس ہمارے مرنے والے کے کچھ کام آئے گا تو اس کے متعلق اللہ کی بات تم نے سن لی کہ اگر مرنے والے نے آخرت کلئے و کچھ تیار نہیں کیا تو اب جب وہ دارالعمل سے رخصت وہ گیا تو دارالجزء میں ساری دنیا کا مال بھی اس کو مل جائے اور اتنا مزید بھی اور وہ چاہے کہ میں فدیہ میں دے کر آخرت کی زندگی میں کامیاب و کامران ہو جائوں تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس کو کامیابی حاصل ہوگی اس لئے صاف صاف بات تو یہ ہے کہ وہ ناکام و نامراد ہوگیا۔ پھر وہ تمہارا خرچ کیا ہوا کس کام آیا ؟ اچھا یہ بات کون کہہ رہ ہے کہ آخرت میں ساری دنیا کا مال اس کو ملے اور اتنا مزید بھی تاکہ وہ فدیہ میں دے کر رہائی حاصل کرلے تو نہیں کرسکے گا ؟ ظاہر ہے کہ یہ کہنے والا تو اللہ ہی ہے پھر تم نے برادری ‘ خاندان ‘ باپ دادا اور خصوصاً اس ملال کی بات کو اللہ کی بات کے مقابلہ میں بڑا اور سچا سمجھایا نہیں ؟ آخر انہی کے کہنے پر تو تم نے وہ مال خرچ کیا جو تیسرے ‘ چوتھے ‘ ساتویں ‘ دسویں اور چالیسویں میں خرچ کیا۔ مزید ایک بار غور کرلو کہ یہ تمہارا دیا ہوا مال ان لوگوں کے کچھ کام نہ آیا جن کو اس مال کی ضرورت تھی کہ وہ اس مال کو دے کر یہاں کامیاب ہوجائیں اس لئے کہ وہ فی الواقع ناکام تھے۔ رہے وہ لوگ جو پہلے ہی کامیاب قرار دیئے گئے اور آخرت کی خوشحالی ان کو مل گئی تو ان کے کام تمہارا یہ مال کیسے آیا ؟ کیونکہ اس مال کی آخرت میں تو کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ رہا وہ مال جو تم نے اپنی زندگی میں اپنے ہاتھوں سے خرچ کیا تو اس کا اجر اس لئے ہوا کہ وہ تمہارا عمل تھا جو تم نے دارالعمل میں رہ کر کیا جہاں عمل کرنے کا صلہ یا نتیجہ لازم ہے اور یہ بھی اللہ نے بتایا ہے جیسا کہ آیت کے پہلے حصہ میں آپ پڑھ چکے ہیں ۔ للذین استجابوالربھم الحسنیٰ ۔ فرمایا ” ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کی اہی برا ٹھکانا ہے “۔ یعنی وہ لوگ جو نیکی کو تو قبول نہیں کرتے اور برائی کی طرف بڑی رغبت رکھتے ہیں اور ہمارا قانون یہ ہے کہ جو حق کو قبول کرتے ہیں ان کیلئے خوبی ہوتی ہے اور جو نہیں کرتے ان کیلئے محرومی ہوتی ہے۔ اس لئے جنہوں نے قبول کیا ان کے اعمال نافع ہوگئے اور اب نافع عمل مٹ نہیں سکتا۔ جنہوں نے انکار کیا وہ غیر نافع ہوگئے اور غیر نافع باقی نہیں رہ سکتا ! اس طرح جو بات گزشتہ آیت میں بتائی گئی تھی اس کو پر یٹیکلی سمجھا دیا کوئی سمجھے یا نہ سمجھے اس کی مرضی ہم صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ایسے نا سمجھوں کیلئے ان کا آخری ٹھکانا دوزخ ہے جس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں کیونکہ انہوں نے اس کیلئے کوئی راہ کھلی رہنے ہی نہیں دی۔
Top