Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
اے ایمان والو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ نکلو اللہ کی راہ میں تو تم زمین سے لگے جاتے ہو،72 ۔ کیا تم دنیا کی زندگی پر بہ مقابلہ آخرت کے راضی ہوگئے ؟ سو دنیا کی زندگی کا سامان تو آخرت کے مقابلہ میں بہت ہی قلیل ہے،73 ۔
72 ۔ یعنی مستعدی کے ساتھ اٹھتے اور چلتے نہیں۔ اشارہ رجب 9 ھ ؁ 620 ء ؁ کے غزوہ تبوک کی جانب ہے، تبوک مدینہ کے شمال میں سرحد شام پر ایک مقام کا نام ہے۔ شام اس وقت مسیحیوں کی رومن امپائر کا ایک صوبہ تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ غزوۂ حنین سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ آئے تو آپ کو اطلاع ملی کہ مسیحی فوجیں تبوک پر جمع ہورہی ہیں۔ اور عنقریب مدینہ پر حملہ کرنے والی ہیں۔ آپ ﷺ نے خود ہی بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا۔ چناچہ 30 ہزار کی جمعیت آپ ﷺ کے ہمراہ ہوگئی۔ تاہم اب کے ایک طرف مقابلہ کسی قبیلہ سے نہیں ایک باضابطہ قواعد دان شاہی فوج سے کرنا تھا پھر موسم بھی شدید گرمی کا، فصل کے پکنے اور کٹنے کا زمانہ بھی قریب اور سفر خاصہ دور دراز قدرۃ بہتوں کی ہمتیں جواب دے گئیں اور منافقیں تو خوب خوب رنگ لائے۔ لشکر نصاری کو جب لشکر اسلام کی اس مستعدی کی اطلاع ملی تو خود ہی ان کے حوصلے پست ہوگئے۔ اور ان کی ہمت فوج کشی کی نہ پڑی۔ لشکر اسلام ایک مدت کے انتظار کے بعد بلامقابلہ واپس آیا۔ (آیت) ” مالکم “۔ کلمہ ملامت وتوبیخ ہے یعنی آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ معناہ التقریر والتوبیخ التقدیر ای شیء یمنعکم عن کذا (قرطبی) (آیت) ” فی سبیل اللہ “۔ یعنی جہاد و قتال کے لئے، فقہاء نے آیت سے یہ بھی نکالا ہے کہ جب جہاد کی نفیر (پکار) ہوجائے تو ہر شخص پر جو بلا عذر ہو، جہاد واجب ہوجاتا ہے۔ اقتضی ظاہر الایۃ وجوب النفیر علی من لم یستنفر (جصاص) 73 ۔ امت کے لئے اصلی اور قوی ترین محرک اور داعیہ عمل یہی اجر آخرت ہے جیسا کہ قرآن مجید کی بہ کثرت آیتوں سے ظاہر و روشن ہے۔” روشن خیالی “ نے افسوس ہے کہ اسی قوی ترین محرک اور موثر ترین داعیہ کو سب سے زیادہ کمزور کردیا ہے۔ اب مسلمان کو لالچ اور ترغیب ہر قسم کی دی جائے گی، دنیوی ترقی کی، فلاح کی، مالی خوشحالی کی، وغیرہ وغیرہ اور زبان پر نام نہ آئے گا تو ایک وہی اجر آخرت کا۔ (آیت) ” من الاخرۃ “۔ یعنی آخرت اور وہاں کی نعمتوں کے بدلہ میں۔ اے بدل الاخرۃ ونعیمھا (بیضاوی) (آیت) ” فی الاخرۃ “۔ یعنی آخرت کے مقابلہ میں، اے فی جنب الاخرۃ (بیضاوی) ۔
Top