Tafseer-e-Mazhari - Ar-Ra'd : 28
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُؕ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَتَطْمَئِنُّ : اور اطمینان پاتے ہیں قُلُوْبُهُمْ : جن کے دل بِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر سے اَلَا : یاد رکھو بِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر سے تَطْمَئِنُّ : اطمینان پاتے ہیں الْقُلُوْبُ : دل (جمع)
(یعنی) جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں (ان کو) اور سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں
الذین امنوا (ا اللہ کی طرف رجوع کرنے والے) وہ لوگ ہیں جو ایمان لے آئے۔ وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ اور ان کے دل اللہ کی یاد سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یعنی ان کے دلوں میں ایمان و یقین جم جاتا ہے ‘ ہر طرح کا شک زائل ہوجاتا ہے۔ ذکر سے مراد ہے : قرآن مجید اور اطمینان سے مراد ہے : ایمان ‘ کیونکہ ایمان دلوں کا سکون ہے اور نفاق دلوں کی بےچینی۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کی یاد سے شیطانی وسوسے زائل ہوجاتے ہیں (اس مطلب پر ذکر سے مراد ہوگی اللہ کی یاد ‘ صرف قرآن مراد نہ ہوگا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر آدمی کے دل کے دو خانے ہوتے ہیں : ایک خانہ میں فرشتہ (کا ظہور) ہوتا ہے اور دوسرے خانہ میں شیطان (کا ظہور) جب آدمی اللہ کی یاد کرتا ہے تو شیطان پیچھے کو سمٹ جاتا ہے اور اللہ کی یاد نہیں کرتا تو شیطان اپنی چونچ آدمی کے دل کے اندر رکھ دیتا ہے ‘ اس طرح وسوسہ پیدا ہوجاتا ہے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ فی المصنف عن عبد اللہ بن شقیق ورواہ البخاری تعلیفاً عن ابن عباس مرفوعاً ۔ حضرت ابن عباس کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے : آدمی کے دل پر شیطان مالش کرتا ہے۔ جب آدمی اللہ کی یاد کرتا ہے تو شیطان پیچھے کو سکڑ جاتا ہے اور جب اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈال دیتا ہے۔ یا آیت کا یہ مطلب ہے کہ اہل ایمان کے پاک و صاف دلوں کی روزی اللہ کی یاد ہے ‘ اللہ کی یاد سے ان کو چین اور سکھ ملتا ہے جیسے مچھلیوں کو پانی میں ‘ پرندوں کو ہوا میں اور وحشی جانوروں کو جنگل میں۔ لیکن اگر غفلت آفریں کوئی اندرونی خیال دل میں آجاتا ہے یا اہل غفلت کی صحبت اثر انداز ہوجاتی ہے تو دلوں کا چین جاتا رہتا ہے ‘ بےچینی اور عدم سکون پیدا ہوجاتا ہے جیسے پانی سے باہر مچھلی کو اور خشکی کے جانور کو پانی کے اندر اور وحشی جانوروں کو پنجرے میں اضطراب ہوتا ہے۔ صوفیہ صافیہ کے خادموں کیلئے ان حالات کا مشاہدہ بالکل بدیہی ہے ‘ ہر مرشد برحق کا خدمت گذار ان حالات کو دیکھا کرتا ہے۔ اس مطلب پر الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا سے مراد ہوں گے : پاک باطن ‘ روشن دل صوفیہ۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب خوب سن لو ! اللہ کی یاد سے ہی (پاک صاف) دلوں کو چین ملتا ہے۔ بغوی نے اس جگہ ایک شبہ اور اس کا جواب لکھا ہے۔ شبہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا ہے : اِنَّمَا الْمُؤْمِنوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہ وَجِلَتُ قُلُوْبُھُمْ بس مؤمن وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور اس جگہ ذکر الٰہی کو مؤمن کے قلب کا اطمینان فرمایا گیا ہے۔ ایک حالت میں خوف اور اطمینان ایک دل میں کیسے جمع ہوسکتے ہیں ‘ اس شبہ کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ عذاب کے ذکر کے وقت مؤمن کا دل ڈر جاتا ہے اور ثواب کے وعدہ کے ذکر کے وقت اس کے اندر اطمینان پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ ڈرتا ہے اللہ کے انصاف اور عذاب سے اور چین پاتا ہے اللہ کے فضل و کرم کے ذکر سے۔ اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ اطمینان و خوف میں باہم تضاد ہے (لیکن ایک حالت میں دونوں کا اجتماع نہیں ہوتا ‘ اطمینان کی حالت جدا ہوتی ہے اور خوف کی جدا) ۔ میرے نزدیک طمانیت اور خوف میں کوئی تضاد نہیں۔ طمانیت انس سے پیدا ہوتی ہے اور انس خوف کی حالت میں بھی ہوتا ہے (بلکہ) خوف وامید بھی ایک حالت میں جمع ہوسکتے ہیں۔ حضرت انس راوی ہیں کہ ایک جوان کے مرنے کے وقت رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا : تجھے (اپنے دل کی) کیفیت) کیا محسوس ہوتی ہے ؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں کا مجھے خوف بھی ہے۔ فرمایا : ایسے موقع پر جس بندہ کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں ‘ اللہ ضرور اس کو اس کی امید کے مطابق عطا فرماتا ہے اور جس چیز سے اس کو خوف ہوتا ہے ‘ اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے۔ رواہ الترمذی وابن ماجۃ۔ ترمذی نے اس روایت کو غریب کہا ہے۔
Top