Tafseer-e-Mazhari - Ibrahim : 13
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِرُسُلِهِمْ : اپنے رسولوں کو لَنُخْرِجَنَّكُمْ : ضرور ہم تمہیں نکال دیں گے مِّنْ : سے اَرْضِنَآ : اپنی زمین اَوْ : یا لَتَعُوْدُنَّ : تم لوٹ آؤ فِيْ مِلَّتِنَا : ہمارے دین میں فَاَوْحٰٓى : تو وحی بھیجی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رَبُّهُمْ : ان کا رب لَنُهْلِكَنَّ : ضرور ہم ہلاک کردینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جو کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ (یا تو) ہم تم کو اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا ہمارے مذہب میں داخل ہو جاؤ۔ تو پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے
وقال الذین کفروا الرسلھم لنخرجنکم من ارضنا او لتعوذن فی ملتنا اور کافروں نے اپنے پیغمبروں سے کہا : ہم تم کو اپنی زمین (بستی ‘ شہر وغیرہ) سے ضرور نکال باہر کردیں گے یا تم کو ہمارے مذہب میں ضرور لوٹ کر آنا ہوگا۔ یعنی اپنا مذہب چھوڑ کر ہمارے مذہب میں آنا ہوگا۔ لوٹ کر آنے سے مراد ہے : اپنا مذہب چھوڑ کر کافروں کے دین میں آنا کیونکہ پیغمبر کبھی کافروں کے مذہب پر پہلے بھی نہ تھے ‘ اسلئے لوٹنے سے مراد دوبارہ کفر اختیار کرنا نہیں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مخاطب تمام مؤمن ہوں ‘ پیغمبر بھی اور ان پر ایمان لانے والے رفقاء بھی۔ جماعت کو بطور تغلیب خطاب کیا گیا (پیغمبروں پر ایمان لانے والے پہلے کفر پر تھے ‘ کفر چھوڑ کر ایمان لائے تھے اور پیغمبر کبھی کافر نہ تھے ‘ اسلئے خطاب تو پیغمبروں کو کیا مگر روئے خطاب دوسرے مؤمنوں کی طرف ہے کہ تم کو دوبارہ اپنے اصلی مذہب کی طرف لوٹنا لازم ہے ورنہ ہم تم کو نکال دیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ اَوْ کا معنی الاَّ اَنْ (ورنہ) یا اِلٰی اَن (یہاں تک) ہو ‘ اس وقت دھمکی کا تعلق صرف اخراج سے ہوگا۔ مطلب اس طرح ہوگا کہ ہم تم کو اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ ‘ یا یہاں تک کہ تم ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ فاوحی الیھم ربھم لنھلکن الظلمین پس پیغمبروں کے رب نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ضرور ہلاک کردیں گے۔ یعنی ہم نے وحی بھیجی اور کہہ دیا۔
Top