Tafseer-e-Mazhari - Ibrahim : 30
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا لِّیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِیْرَكُمْ اِلَى النَّارِ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرائے لِلّٰهِ : اللہ کے لیے اَنْدَادًا : شریک لِّيُضِلُّوْا : تاکہ وہ گمراہ کریں عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ قُلْ : کہ دیں تَمَتَّعُوْا : فائدہ اٹھا لو فَاِنَّ : پھر بیشک مَصِيْرَكُمْ : تمہارا لوٹنا اِلَى : طرف النَّارِ : جہنم
اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کئے کہ (لوگوں کو) اس کے رستے سے گمراہ کریں۔ کہہ دو کہ (چند روز) فائدے اٹھا لو آخرکار تم کو دوزخ کی طرف لوٹ کر جانا ہے
وجعلوا اللہ اندادا اور انہوں نے اللہ کی مثل دوسروں کو قرار دیا باوجودیکہ اللہ کا کوئی مثل نہ تھا۔ مثل قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ نام اور عبادت میں اللہ کی طرح دوسروں کو قرار دیا (ا اللہ کی پرستش کی طرح دوسروں کو معبود الٰہ مانا) ۔ لیضلوا عن سبیلہ تاکہ اللہ کی راہ سے لوگوں کو بھٹکا دیں۔ لِّیُضِلُوْا میں لام سبب اور علت کے لئے نہیں ہے کیونکہ اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا کرنے سے ان کی غرض نہ خود گمراہ ہونا تھا نہ دوسروں کو گمراہ کرنا تھا ‘ بلکہ یہ لام غایت ہے یعنی اللہ کی مثل دوسروں کو قرار دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ گمراہ ہوگئے۔ قل تمتعوا فان مصیرکم الی النار آپ کہہ دیجئے کہ چندے عیش کرلو کیونکہ اخیر انجام تمہارا دوزخ میں جانا ہے۔ یعنی اپنی نفسانی خواہشات یا بت پرستی اور گمراہی میں پڑے کچھ مدت تک مزے اڑاتے رہو - - - - - - - - ۔ جو کچھ تمہارے لئے مقدر کردیا گیا ہے اور جس وقت تک مزہ اڑانا تمہارے لئے لکھ دیا گیا ہے ‘ اتنی مدت تک مزے اڑاؤ۔ ذوالنون نے کہا : تمتع کا معنی یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو آدمی اپنی نفسانی خواہشات سے بہرہ اندوز ہو۔ تَمَتَّعُوْا اگرچہ امر کا صیغہ ہے ‘ لیکن امر سے مراد حکم نہیں ہے بلکہ یہ ایک تہدید اور عذاب کی دھمکی ہے اور اس بات کی اطلاع ہے کہ تمہاری یہ گمراہیاں تم کو عذاب میں لے جائیں گی۔ اسی لئے امر کے بعد فرمایا کہ آخر تم کو دوزخ میں جانا ہے ‘ گویا دوزخ میں جانے کا تم کو حکم دے دیا گیا ہے۔
Top