Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 88
قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ
قُلْ : آپ کہہ دیں نَزَّلَهٗ : اسے اتارا رُوْحُ الْقُدُسِ : روح القدس (جبرئیل مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ لِيُثَبِّتَ : تاکہ ثابت قدم کرے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے (مومن) وَهُدًى : اور ہدایت وَّبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُسْلِمِيْنَ : مسلمانوں کے لیے
کہہ دو کہ اس کو روح القدس تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی کے ساتھ لے کر نازل ہوئے ہیں تاکہ یہ (قرآن) مومنوں کو ثابت قدم رکھے اور حکم ماننے والوں کے لئے تو (یہ) ہدایت اور بشارت ہے
قل نزلہ روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین امنوا وھدی وبشری للمسلمین : آپ کہہ دیجئے کہ اس کو جبرئیل میرے رب کی طرف سے حکمت کے مطابق لے کر آئے ہیں تاکہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے اور ان مسلمانوں کیلئے ہدایت اور خوشخبری (کا ذریعہ) ہوجائے۔ رُوْحُ الْقُدُس سے مراد حضرت جبرئیل ہیں۔ قدس کا معنی ہے : پاکی ‘ یعنی پاکی والی روح۔ نَزَّلَہٗ تنزیل (مصدر) تنزیل کا معنی ہے : تدریجاً ‘ تھوڑا تھوڑا نازل کرنا۔ یہ لفظ تنبیہ کر رہا ہے کہ قرآن کا مصالح کے مطابق تدریجی نزول تبدیل کا مقتضی ہے (اگر بعض احکام کو بدلنا نہ ہوتا تو یکدم سب قرآن نازل کردیا جاتا) الْحَقِّ حکمت کاملہ۔ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یعنی تدریجاً اسلئے نزول ہوا کہ جو لوگ اس کے کلام اللہ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں ‘ ان کے ایمان میں مزید استحکام ہوجائے اور ناسخ کو سننے کے بعد جب وہ غور کریں اور سمجھیں کہ حکمت و مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ پچھلا حکم اس وقت منسوخ کر کے یہ نیا حکم نازل کردیا جائے تو ان کے عقائد میں مزید پختگی پیدا ہوجائے اور اطمینان قلب حاصل ہوجائے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ناسخ کو نازل کر کے ایمانداروں کی جانچ کرنی مقصود ہے۔ جب وہ قدیم حکم کی جگہ جدید حکم کو برحق یقین کرلیں اور سمجھ جائیں کہ اللہ حکمت والا ہے ‘ اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں تو اس سے ان کو مزید استحکام ایمانی حاصل ہوجائے۔ لِلْمُسْلِمِیْنَ مسلمین سے مراد ہیں : فرمانبردار ‘ مطیع حکم۔ صرف مسلمانوں کیلئے ہدایت و بشارت کا ذریعہ قرار دینے سے درپردہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ غیر مسلموں کیلئے یہ باعث ہدایت و بشارت نہیں ہے۔
Top