Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 102
قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ
قُلْ : آپ کہہ دیں نَزَّلَهٗ : اسے اتارا رُوْحُ الْقُدُسِ : روح القدس (جبرئیل مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ لِيُثَبِّتَ : تاکہ ثابت قدم کرے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے (مومن) وَهُدًى : اور ہدایت وَّبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُسْلِمِيْنَ : مسلمانوں کے لیے
(کہہ دیجیے کہ اس قرآن کریم کو روح القدس نے تمہارے رب کی جانب سے حق کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ان لوگوں کو جمائے رکھے جو ایمان لائے ہیں، اور یہ ہدایت و بشارت ہو خدا کے فرمانبرداروں کے لیے۔
قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ ۔ (سورۃ النحل : 102) (کہہ دیجیے کہ اس قرآن کریم کو روح القدس نے تمہارے رب کی جانب سے حق کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ان لوگوں کو جمائے رکھے جو ایمان لائے ہیں، اور یہ ہدایت و بشارت ہو خدا کے فرمانبرداروں کے لیے۔ ) قرآن ایک ہی مرتبہ نازل کیوں نہیں ہوا ؟ مشرکینِ مکہ ایک اعتراض یہ بھی کرتے تھے کہ اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا تو اسے ایک ہی دفعہ نازل کردیا جاتاکیون کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کی احتیاج نہیں کہ وہ پہلے سوچ کر ایک مضمون تیار کرے، پھر اسے الفاظ کا جامہ پہنائے، پھر اس کی نوک پلک سنوارے۔ یہ قرآن پاک تھوڑا تھوڑا دھیرے دھیرے اترنا۔ یہ تو انسانی کمزوری ہے کہ وہ ایک کتاب کی تیاری میں مدتوں صرف کردیتا ہے۔ پروردگار نے نہایت قطعیت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیجیے کہ قرآن کریم میری تیار کردہ کتاب نہیں جسے روح القدس نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے میرے سینے میں اتارا ہے۔ روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جو تمام فرشتوں کے سردار ہیں ان کا نام لینے کی بجائے روح القدس کا لفظ استعمال کرکے اہل مکہ کو توجہ دلائی ہے کہ جس عزیز ذات کے واسطے سے یہ قرآن اتار گیا ہے وہ ایک پاکیزہ روح ہے جس سے کسی خیانت کا تصور بھی ناممکن ہے۔ رہی یہ بات کہ قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کرکے کیوں نازل کیا گیا ہے۔ اس کی حکمت اتنی واضح ہے کہ صرف وہی شخص اس کے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے جو اسلام دشمنی میں اندھا ہوچکا ہو۔ ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے کہ عرب قوم، اُمّی قوم تھی جو نہ لکھنا جانتے تھے اور نہ پڑھنا جانتے تھے۔ شہربھر میں چند آدمیوں کا لکھا پڑھنا ہونا بھی تعجب خیز تھا اور پھر ان کی بھی لکھنے پڑھنے کی استطاعت ایک پرائمری لڑکے سے زیادہ نہیں تھی۔ ایسی قوم کے افراد کے سامنے اگر قرآن کریم جیسی علمی اور ادبی کتاب نازل کردی جاتی تو اولاً تو وہ اسے پڑھ ہی نہیں سکتے تھے اور اگر پڑھ لیتے تو اس کا مفہوم سمجھنا ان کے بس کی بات نہ تھی کیونکہ قرآن کریم ادبیاتِ عالیہ کی بلند ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے اور ان میں فکری گہرائی ایسی ہے کہ بعض دفعہ اسے سمجھنے کے لیے اس کے ایک ایک لفظ پر اعتکاف کرنا پڑتا ہے۔ اس کا ایک ایک جملہ اپنی معنویت میں گہرے سمندر سے کم نہیں، اس کے الفاظ کا حسن تراشیدہ ہیروں کی طرح حیرت میں ڈبو دیتا ہے اور الفاظ کا دروبست بعض دفعہ نئے فکری پیمانوں کی بنیاد بن جاتا ہے۔ کتاب میں احکام اگرچہ بکھرے ہوئے ہیں لیکن ان کے اندر ایک ایسی تدریج اور ایک ایسا نظم و ضبط پایا جاتا ہے جسے سمجھنے کے لیے ابوحنیفہ ( رح) جیسے لوگ بھی عاجزی سے سر جھکاتے ہیں۔ ایسی کتاب اگر ایک قوم کی تعمیر کے لیے نازل کی جارہی تھی تو انتہائی ضروری تھا کہ وہ تھوڑی تھوڑی کرکے نازل کی جاتی تاکہ اس کا ایک ایک لفظ، ایک ایک جملہ اور ایک ایک مفہوم دلوں میں اتارا جاتا، پھر عملی زندگی پر اس کا انطباق ہوتا۔ اور اس طرح سے وہ قومی زندگی میں ایک روح کی مانند سرایت کرتا۔ یہی وہ چیز ہے جسے تثبیت کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اور اجتماعی زندگی میں اسی سے ہدایت کا سامان کیا گیا ہے اور پھر یہی چیز مسلمانوں کے لیے بشارت بن گئی۔
Top