Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی۔ اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھا ہے
وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصبرین اور اگر بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا تمہارے ساتھ برتاؤ کیا گیا ہے اور اگر صبر کرلو تو صبر کرنے والوں کیلئے یہی بہتر ہے۔ کسی برائی کے بدلے کو عقوبت اور عقاب کہا جاتا ہے۔ اس کو عقوبت (برا بدلہ) کہنا محض لفظی مناسبت کی وجہ سے ہے ‘ جیسے جَزَآءُ سَیِّءَۃٍ سَیِّءَۃٌ مِّثْلُھَا میں بدی کے بدلہ کو بھی برائی کہا گیا ہے ‘ حالانکہ برائی کی سزا برائی نہیں ہوتی۔ مطلب یہ ہے کہ برائی کی سزا حد جرم کے برابر دے سکتے ہو ‘ اس سے تجاوز نہ کرو۔ صبر کرنے سے مراد ہے : انتقام نہ لینے اور بدلہ لینے سے رک جانا۔ لَھُوَ خَیْرٌ یعنی انتقام سے صبر بہتر ہے۔ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا میں تو درپردہ عفو کی ترغیب ہے اور لِءِنْ صَبَرْتُمْ میں تاکید کے ساتھ صبر کرنے کی صراحت ہے۔ للِّصّٰبِرِیْنَ میں لفظ صابرین کو ذکر کرنے سے اللہ کی طرف سے فی الجملہ ان لوگوں کی تعریف ہے جو مصائب اور شدائد پر صبر کرتے ہیں۔
Top