Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 32
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
انہوں نے کہا، تو پاک ہے۔ جتنا علم تو نے ہمیں بخشا ہے، اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ بے شک تو دانا (اور) حکمت والا ہے
قَالُوْا ( بولے) جب فرشتوں کو ثابت ہوگیا کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) ہم سے زیادہ عالم اور افضل ہیں تو اپنے عجز اور بشر کی افضلیت اور استحقاق خلافت کا اقرار کیا اور اس نعمت کا شکر کیا کہ حق تعالیٰ نے ان کے پیدا کرنے کی حکمت ظاہر فرمائی اس لیے ذیل کی آیت کے مضمون کو عجز وزاری اور تضرع کے ساتھ درگاہ الٰہی میں ( ادا کیا) بولے۔ سُبْحَانَکَ ( تو پاک ہے) سبحانک فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے اس کی تقدیرنُسَبِّحُکَ سُبْحَانًاہے اور یہ معنی ہیں کہ خداوندا آپ کے افعال مصلحتوں اور حکمتوں سے خالی ہونے سے بالکل پاک اور منزہ ہیں۔ لَاعِلْمَ لَنَا ( نہیں ہے ہمیں علم) یعنی ہم آپ کے کسی علم کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ اِلَّا مَا عَلَمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ ( اس کے سوا جو تو نے ہمیں بتادیا ہے بیشک تو اپنی مخلوق کا جاننے والا اور اپنے امر میں حکمت والا ہے۔ ) علیم اور حکیم کے ایک اور معنی بھی ہیں علیم کے معنی حاکم عادل اور حکیم کے معنی اپنے حکم کو محکم اور راست کرنے والا۔ جب فرشتوں نے درگاہ خداوندی میں گذارش کردی اور یہ بھی انہیں اچھی طرح ثابت ہوگیا کہ ہم محض عاجز ہیں تو حق تعالیٰ نے ان پر یہ انعام فرمایا کہ جو علم حضرت آدم ( علیہ السلام) کو عطا فرمایا تھا وہ ان کے ذریعہ سے فرشتوں کو بھی عطا فرمایا چناچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے :
Top