Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 101
اِ۟لَّذِیْنَ كَانَتْ اَعْیُنُهُمْ فِیْ غِطَآءٍ عَنْ ذِكْرِیْ وَ كَانُوْا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَمْعًا۠   ۧ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ كَانَتْ : تھیں اَعْيُنُهُمْ : ان کی آنکھیں فِيْ غِطَآءٍ : پردہ میں عَنْ : سے ذِكْرِيْ : میرا ذکر وَكَانُوْا : اور وہ تھے لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : نہ طاقت رکھتے سَمْعًا : سننا
جن کی آنکھیں میری یاد سے پردے میں تھیں اور وہ سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے
الذین کانت اعینہم فی غطآء عن ذکری جن کی آنکھوں پر میری یاد کی طرف سے پردہ پڑا ہوا تھا۔ غطآء کسی چیز کو چھپانے والا پردہ۔ ذکر سے مراد ہے ان دلائل وبراہین کو دیکھنا جن سے اللہ کی ذات وصفات کا ثبوت ہو رہا ہے (یعنی ان کی آنکھوں پر غفلت اور ضد اور جہالت کے پردے پڑے ہوئے تھے ان کو اللہ کی ذات وصفات کی توحید و عظمت دکھائی نہیں دیتی تھی) ۔ وکانوا لا یستطعیون سمعا۔ اور (ان کے کانوں میں ڈاٹیں تھیں) وہ سن نہیں سکتے تھے یعنی میری توحید الوہیت اور ربوبیت کو یاد دلانے والے دلائل اور میرے کلام اور ہدایت آفریں بات کو سن بھی نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ اللہ نے ان کے لئے شقاوت لکھ دی تھی اور رسول اللہ ﷺ : کی اور آپ کے ساتھیوں کی دشمنی اور عناد و ضد کو ان کے دلوں میں ڈال دیا تھا۔ کافروں کا مبدء تعین اللہ کا اسم مضل تھا (یعنی اسم مضل کا پر تو ان پر پڑا تھا پس تخلیقاً وہ مظہر ضلالت تھے اس لئے ان کا ہدایت یاب ہونا ناممکن تھا مکمل تشریح ہم کئی مقامات پر کرچکے تعین خلق کے مبادی صفات الٰہیہ ہیں ‘ صفاتِ الٰہیہ کا پر تو مخلوق پر پڑا ہے جس کی وجہ سے کوئی ہدایت یافتہ اور کوئی گمراہ ہوگیا ‘ یہ تفصیل کئی جگہ کردی گئی ہے)
Top