Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 105
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآئِهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے انکار کیا بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّهِمْ : اپنا رب وَلِقَآئِهٖ : اور اس کی ملاقات فَحَبِطَتْ : پس اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل (جمع) فَلَا نُقِيْمُ : پس ہم قائم نہ کریں گے لَهُمْ : ان کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَزْنًا : کوئی وزن
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے
اولئک الذین کفروا بایت ربہم ولقآۂ یہ ہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اللہ سے ملنے کا انکار کیا یعنی مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے منکر ہوئے۔ آیت میں (درپردہ) ان لوگوں پر بھی تشنیع ہے جو قیامت اور حشر و نشر کے تو قائل ہیں ‘ لیکن اعمال دنیوی کو اعمال اخروی پر ترجیح دیتے ہیں ہمیشہ ساری زندگی دنیا کو سنبھالنے اور سنوارنے میں لگائے رکھتے ہیں آخرت کا ان کو تصور بھی نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہوشیار وہ آدمی ہے جس نے اپنے نفس کو اپنے حکم کا تابع رکھا اور مرنے کے بعد (والی زندگی) کے لئے کام کئے اور بےعقل وہ آدمی ہے جو نفس کا پیرو رہا اور اللہ پر اس نے (جھوٹی) آرزوبندی کی (یعنی اللہ کی قہاریت اور عذاب دینے کی طرف سے غافل رہا اور جو دل چاہا وہ کیا اور یہ خیال کرلیا کہ اللہ رحیم ہے کریم ہے وہ یقیناً معاف کر ہی دے گا) رواہ احمد والترمذی وابن ماجۃ والحاکم بسند صحیح عن انس ؓ ۔ اگر آیت میں یہودی اور عیسائی مراد ہوں تو آیات رب اور ملاقات رب کے انکار کا یہ مطلب ہوگا کہ (اگرچہ یہ لوگ قیامت کا اقرار کرتے ہیں مگر) قیامت کی جو واقعی تشریح ہے اس کے منکر ہیں یا (اپنے گروہ کے لئے) عذاب پانے کے منکر ہیں۔ فحبطت اعمالہم فلا نقیم لہم یوم القیمۃ وزنا۔ سو اس لئے ان کے سارے اعمال غارت ہو گئے قیامت کے روز ہم ان کے نیک اعمال کا ذرا بھی وزن قائم نہیں کریں گے۔ اَعْمَالُہُمْیعنی وہ کام جو دنیا کمانے کے لئے انہوں نے کئے تھے یا وہ اعمال جو اخروی ثواب کی خاطر انہوں نے کئے تھے ‘ لیکن ثواب سے محروم رہیں گے ‘ کیونکہ نیک اعمال قبول ہونے کی بنیادی شرط ایمان ہے اور وہ کافر تھے ‘ وزن قائم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاں ان کی کوئی قدر نہ ہوگی۔ اللہ ان کے ان اعمال کا اعتبار نہیں کرے گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (قیامت کے دن) بعض بڑے موٹے آدمی ایسے آئیں گے کہ مچھر کے پر کی برابر بھی اللہ کے نزدیک ان کا وزن نہ ہوگا (اس کی تصدیق کے لئے) پڑھو ‘ فَلاَ نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا۔ رواہ البخاری ومسلم فی الصحیحین۔ ابو نعیم اور اجری نے اس آیت کی تشریح میں حضرت ابوہریرہ ؓ : کی یہ روایت نقل کی ہے بعض طاقت ور ‘ مضبوط ‘ پُر خور آدمیوں کو (قیامت کے دن میزان (کے پلڑہ) میں رکھا جائے گا۔ لیکن اس کا وزن جو برابر بھی نہ ہوگا ‘ فرشتہ ایسے ستّر ہزار آدمیوں کو ایک ہی دھکا دے کر پھینک دے گا۔ یا آیت کا یہ مطلب ہے کہ ایسے لوگوں کے اعمال تولنے کے لئے میزان قائم ہی نہیں کی جائے گی ‘ ان کے اعمال کی وزن کشی ہی نہیں ہوگی بلکہ بغیر وزن کئے ان کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا ‘ یا یہ مطلب ہے کہ جن اعمال کو وہ نیکیاں خیال کرتے ہیں میزان عدل میں ان اعمال کا کوئی وزن نہ ہوگا۔ بغوی نے ابو سعید خدری کا قول نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال لے کر آئیں گے جو ان کی نظر میں اتنے بڑے ہوں گے جیسے تہامہ کے پہاڑ ‘ لیکن تولنے کے بعد ان کا کوئی وزن ہی نہ ہوگا یہی مطلب ہے آیت فلاَ نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًاکا۔ سیوطی نے لکھا ہے کیا اعمال کی وزن کشی صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی اور کافروں کے اعمال تولے ہی نہ جائیں گے ‘ یا کافروں کے اعمال کی ہی وزن کشی ہوگی یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ کچھ علماء اوّل قول کے قائل ہیں اور کچھ علماء وزن کشی کے عموم کے قائل ہیں اوّل گروہ اپنے قول کی تائید میں آیت فلاَ نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا کو پیش کرتا ہے۔ دوسرا گروہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ آیت کا مقصد یہ نہیں کہ ان کے اعمال تولے نہیں جائیں گے بلکہ مجازی معنی مراد ہے یعنی ان کے اعمال قابل اعتبار نہ ہوں گے ‘ کیونکہ دوسری آیت میں آیا ہے وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِنْیُہٗ فَاُولٰءِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنْفُسَہُمْ فِیْ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ ۔۔ فَکْنُتُمْ بِہَا تُکَذِّبُوْنَتک۔ سیوطی نے قرطبی کا قول نقل کیا ہے کہ ہر شخص کے اعمال کا زن ہونا ضروری نہیں (نہ ہر مؤمن کے اعمال کا نہ ہر کافر کے اعمال کا) جو لوگ بلاحساب کے جنت میں چلے جائیں گے ان کے اعمال کا وزن بھی نہ ہوگا (جب حساب ہی نہیں تو وزن کیسا) اسی طرح کچھ لوگ بلا حساب دوزخ میں بھیج دیئے جائیں گے ان کے اعمال کا بھی وزن نہ ہوگا ‘ انہی کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمَاہُمْ ۔۔ علامہ سیوطی نے فرمایا قرطبی کا یہ قول جامع ہے اور دونوں آیات میں تضاد کو دور کرتا ہے ‘ جس فریق کو فوراً جہنم میں بھیج دیا جائے گا اس کے اعمال کا وزن بھی نہ ہوگا ‘ باقی کافروں کے اعمال تولنے کے لئے میزان قائم کی جائے گی۔ حضرت مفسر نے فرمایا میں کہتا ہوں شاید جن کافروں کا آیت مذکورہ میں ذکر کیا گیا ہے ان سے مراد منافق اور اہل کتاب ہوں۔ منافق تو قیامت کے دن (شروع میں چھٹائی سے پہلے) مسلمانوں کے گروہ میں شامل رہیں گے اور اہل کتاب کسی دوسرے معبود کی طرف مشرکوں کی طرح نہیں جائیں گے ‘ ہر مشرک اس معبود کے پیچھے چلا جائے گا جس کی وہ پوجا کرتا ہے مگر اہل کتاب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
Top