Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 33
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَآ اَنَا : اس کے سوا نہیں میں بَشَرٌ : بشر مِّثْلُكُمْ : تم جیسا يُوْحٰٓى : وحی کی جاتی ہے اِلَيَّ : میری طرف اَنَّمَآ : فقط اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : واحد فَمَنْ : سو جو كَانَ : ہو يَرْجُوْا : امید رکھتا ہے لِقَآءَ : ملاقات رَبِّهٖ : اپنا رب فَلْيَعْمَلْ : تو اسے چاہیے کہ وہ عمل کرے عَمَلًا : عمل صَالِحًا : اچھے وَّ : اور لَا يُشْرِكْ : وہ شریک نہ کرے بِعِبَادَةِ : عبادت میں رَبِّهٖٓ : اپنا رب اَحَدًا : کسی کو
کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ (البتہ) میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود (وہی) ایک معبود ہے۔ تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہیئے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے
قل انما ان ابشر مثلکم یوحی الی انما الہکم الہ واحد آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح انسان ہی ہوں (فرق یہ ہے کہ) میرے پاس وحی آتی کہ تمہارا معبود اکیلا معبود ہے (کوئی اس کا شریک نہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا ‘ اللہ نے اپنے رسول ﷺ : کو تواضع کی تعلیم دی تاکہ آپ مغرور نہ ہوجائیں اور حکم دیا کہ اپنے آدمی ہونے کا اقرار کریں لیکن اقرار بشریت کے ساتھ یہ بھی ظاہر کردیں کہ میرے اندر صاحب وحی ہونے کی خصوصیت بھی ہے میرے پاس وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود اکیلا معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں کہتا ہوں اس حکم سے ایک بہت بڑے فتنہ کا دروازہ بند ہوگیا جس میں نصاریٰ مبتلا ہوگئے تھے۔ حضرت عیسیٰ کے معجزات امت عیسیٰ نے دیکھے اندھوں کو بینا ہوتے لاعلاج بیماروں کو تندرست ہوتے اور مردوں کو زندہ ہوتے دیکھا اللہ نے یہ معجزات حضرت عیسیٰ کے ہاتھ سے ظاہر فرمائے تو عیسائی چکر میں پھنس گئے (کسی نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور کسی نے جزء الوہیت قرار دیا) رسول اللہ ﷺ : کو تو اللہ نے حضرت عیسیٰ کے معجزات سے زیادہ معجزات عطا فرمائے تھے لوگوں کا فتنہ میں پڑجانا غالب تھا ‘ اس لئے حکم دیا کہ اپنی عبودیت اور اللہ کی توحید کا اعلان کردیں۔ فمن کان یرجو لقآء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا پس جو شخص اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اس کو چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ یَرْجُوْیعنی جو شخص اللہ کے سامنے جانے سے ڈرتا ہو اور اس کے ثواب اور دیدار کا خواہشمند ہو ‘ بغوی نے لکھا ہے رجاء کا معنی خوف بھی ہے اور امید بھی ایک شاعر نے دونوں معنی کے لئے ایک شعر میں اس لفظ کا استعمال کیا ہے ؂ فَلاَ کُلَّ مَا تَرْجُوْ مِنَ الْخَیْرِ کَاءِنٌ وَلاَ کُلُّ مَا تَرْجُوْ مِنَ الشَّرِّ وَاقِعٌ یہ ضروری نہیں کہ جس خیر کے تم امیدوار ہو وہ ہو ہی جائے اور نہ یہ لازم ہے کہ جس شر سے تم ڈرتے ہو وہ شر واقع ہی ہوجائے (کبھی خیر کی جگہ شر واقع ہوجاتی ہے اور کبھی شر کی جگہ خیر مل جاتی ہے) عَمَلاً صَالِحا یعنی اللہ کی پسند کا کام کرے۔ وَلاَ یُشْرِکْیعنی لوگوں کو دکھانے کے لئے نیک کام نہ کرے نہ سوائے اللہ کے کسی عمل صالح کی تعریف اور جزا کا کسی سے امیدوار ہو۔ ابن ابی الدنیا نے کتاب الاخلاص میں اور ابن ابی حاتم نے طاؤس کا بیان نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں موقف (حج) میں کھڑا ہوتا ہوں اللہ کی خوشنودی کا خواستگار ہوتا ہوں لیکن یہ بھی پسند کرتا ہوں کہ میرا اس جگہ موجود ہونا دیکھ لیا جائے (یعنی لوگ مجھے اس جگہ کھڑا دیکھ لیں) حضور ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ آیت فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا۔۔ نازل ہوئی۔ یہ حدیث مرسل ہے ‘ حاکم نے مستدرک میں اس کو موصولاً حضرت ابن عباس کی روایت قرار دیا ہے اور شرط شیخین کے مطابق کہا ہے۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد کا بیان نقل کیا ہے کہ ایک مسلمان جہاد کرتا تھا ‘ لیکن اس بات کو پسند کرتا تھا کہ جہاد کے اندر اس کی موجودگی کو لوگ دیکھ لیں اس پر آیت فَمَنْ کَاَنَ یَرْجُوْآ۔۔ نازل ہوئی۔ ابن عساکر نے تاریخ میں اور ابو نعیم نے سدی صغیر کے سلسلہ سے بروایت کلبی از ابوصالح بیان کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا جندب بن زہیر جب نماز پڑھتے یا روزہ رکھتے یا صدقہ و خیرات کرتے اور لوگوں میں آپ کی نیکی کا تذکرہ ہوتا تو آپ خوش ہوتے تھے اور خوش ہو کر عمل خیر میں اور زیادتی کرتے تھے اس پر آیت فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْ ۔۔ نازل ہوئی۔ ایک شبہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں اپنے گھر کے اندر جا نماز پر تھا ‘ اچانک ایک آدمی آگیا اور مجھے اس کے آنے سے اس بات پر خوشی ہوئی کہ اس نے مجھے اس حالت میں (یعنی جا نماز پر) دیکھا ‘ حضور نے فرمایا ابوہریرہ ؓ تیرے اوپر اللہ رحمت کرے تیرے لئے دو ثواب ہیں ایک ثواب چھپ کر عبادت کرنے کا اور دوسرا ثواب ظاہر ہوجانے کا۔ (ترمذی) مسلم نے حضرت ابوذر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ خدمت گرامی میں عرض کیا گیا ‘ فرمائیے اگر کوئی شخص نیک کام کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں (تو کیا اس کا عمل رائیگاں ہوجائے گا) فرمایا مؤمن کے لئے یہ فوری (دنیوی) بشارت ہے۔ یہ دونوں حدیثیں ان احادیث کے خلاف ہیں جو آیت مذکورہ کے سبب نزول کے سلسلہ میں بیان کی گئی ہیں۔ ازالہ دونوں میں کوئی تضاد نہیں ‘ آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی عمل اللہ کے لئے کرتا ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی چاہتا ہے کہ لوگ اس کو نیکی کرتے دیکھیں یا لوگوں کے سامنے زیادہ نیکی کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی تعریف کریں تو ریاکاری اور شرک خفی ہے باقی جو شخص کوئی نیک کام اللہ کے واسطے کرتا ہے اور لوگ اس کو دیکھ پاتے ہیں اور تعریف کرنے لگتے ہیں اور وہ اس سے خوشی محسوس کرتا ہے تو چونکہ وہ نیکی لوگوں کو دکھانے اور تعریف کرانے کے لئے نہیں کرتا۔ نہ لوگوں سے کوئی معاوضہ چاہتا ہے نہ لوگوں کے دکھانے کے لئے عمل خیر میں اضافہ کرتا ہے (اس لئے یہ ریاکاری نہیں بلکہ) یہ اس کے لئے فوری خوشی ہے اور اس کے لئے دوہرا اجر ہے ایک چھپا کر عبادت کرنے کا دوسرا ظاہر ہوجانے کا۔ واللہ اعلم۔ حضرت جندب راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص لوگوں کو سنانے کے لئے (نیکی) کرتا ہے اللہ بھی اس کے ساتھ سنانے کا برتاؤ کرتا اور جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لئے (نیکی) کرتا ہے اللہ بھی اس کے ساتھ دکھاوٹ کا برتاؤ کرتا ہے۔ متفق علیہ۔ حضرت محمود بن لبید راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم پر جس چیز کا سب سے زیادہ مجھے خوف ہے وہ شرک اصغر ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ شرک اصغر کیا فرمایا ریاکاری۔ راواہ احمد۔ بیہقی نے شعب الایمان میں اتنا زیادہ نقل کیا ہے کہ جس وقت اللہ اپنے بندوں کو ان کے اعمال کے موافق بدلہ دے گا ان سے فرما دے گا انہیں کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم (نیکی) کرتے تھے جا کر دیکھو کیا ان کے پاس تم کو (نیکی کی) جزا یا کوئی خبر ملتی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا شرک اصغر سے بچو لوگوں نے کہا شرک اصغر کیا حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا ریاکاری ‘ اخرجہ ابن مردویہ فی التفسیر والاصبہانی فی الترغیب والترہیب۔ حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ فرماتا ہے میں شرک سے سب سے زیادہ بےنیاز ہوں جو شخص کسی (نیک) عمل میں میرے ساتھ کسی کو ساجھے دار بناتا ہے (یعنی نیک عمل سے کسی اور کی بھی خوشنودی چاہتا ہے) میں اس کو اس کے شرک کے ساتھ چھوڑ دیتا ہوں۔ دوسری روایت میں ہے ‘ میں اس سے بیزار ہوں اس کا عمل اسی کے لئے ہوگا جس کے لئے اس نے کیا ہوگا۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابو سعید بن ابی فضالہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے ناقابل شک دن میں جب لوگوں کو اللہ جمع کرے گا تو (اللہ کی طرف سے) ایک منادی ندا دے گا جس نے اپنے کئے ہوئے نیک عمل میں کسی کو اللہ کا ساجھی بنایا ہو وہ اپنا ثواب اسی کے پاس جا کر طلب کرے ‘ اللہ شرک سے سب سے زیادہ بےنیاز ہے۔ رواہ احمد والترمذی وابن ماجۃ وابن حبان والبیہقی۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا میں نے خود رسول اللہ ﷺ : کو فرماتے سنا ‘ جو شخص اپنا (نیک) عمل لوگوں کو سنانے کے لئے کرے گا اللہ بھی اس کے ساتھ سنانے کا برتاؤ کرے گا اس کو خفیف کرے گا حقیر کرے گا اور اس کی توہین کرے گا۔ رواہ احمد والبیہقی فی شعب الایمان۔ حضرت شداد بن اوس نے فرمایا میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ جس نے دکھاوٹ کے لئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوٹ کے لئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوٹ کے لئے خیرات کی اس نے شرک کیا۔ امام احمد نے حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ قیامت کے دن سر بمہر اعمالنامے لا کر بارگاہِ الٰہی میں حاضر کئے جائیں گے ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ان کو پھینک دو اور ان کو قبول کرلو (یعنی بعض اعمالناموں کو پھینک دینے اور بعض کو قبول کرنے کا حکم دے گا) فرشتے عرض کریں گے تیری عزت کی قسم ہم نے تو وہی لکھا ہے جو اس نے کیا تھا (یعنی اندراج غلط نہیں ہے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ (ساقط کردہ) اعمال میرے سوا دوسروں کے لئے کئے گئے تھے اور میں آج وہی اعمال قبول کروں گا جو محض میرے لئے کئے گئے ہوں۔ طبرانی نے الاوسط میں اور اصبہانی نے الترغیب میں اور بزار نیز دارقطنی نے شہر بن عطیہ کی روایت سے بیان کیا کہ قیامت کے دن بعض لوگوں کو حساب کے لئے پیش کیا جائے گا اور ان کے اعمالناموں میں پہاڑوں جیسی نیکیاں درج ہوں گی ‘ رب العزت فرمائے گا تو نے فلاں دن نماز پڑھی تھی اور اس لئے پڑھی تھی کہ تجھے (لوگوں میں) نمازی کہا جائے میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں ‘ اطاعت خالص میرے ہی لئے ہونی چاہئے ‘ تو نے فلاں دن روزہ رکھا تھا تاکہ لوگ کہیں فلاں شخص نے روزہ رکھا ‘ میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں اطاعت خالص میرے ہی لئے ہونی چاہئے۔ اس طرح ایک کے بعد ایک اس کے اعمال مٹا دیئے جائیں گے اور فرشتے اس سے کہیں گے تو اللہ کے سوا دوسروں کے لئے یہ (نیک) کام کرتا تھا حضرت شداد بن اوس کا بیان ہے کہ اللہ ایک میدان میں اگلوں پچھلوں کو (سب کو) تاحد نظر جمع کرے گا اور ایک پکارنے والا پکارے گا جس کی آواز سب سنیں گے میں (جھوٹے مفروضہ) شرکاء سے بہتر ہوں دار دنیا میں جو (نیک) کام ایسا کیا گیا جس میں کسی شریک کو بھی ملا دیا گیا تو میں اس کام کو اس شریک کے لئے چھوڑ دوں گا اور آج صرف اسی عمل کو قبول کروں گا جو خالص میرے لئے کیا گیا ہوگا۔ رواہ الاصبہانی۔ حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان ہے جس نے دوسروں کو دکھانے کے لئے کچھ (نیک کام) کیا تو اللہ قیامت کے دن اس کام کو اسی کے (جس کے لئے وہ کام کیا گیا ہوگا) سپرد کر دے گا اور فرمائے گا دیکھ یہ (جھوٹا شریک) تجھے کچھ بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے ؟ اہل تصوف کے نزدیک آیت مذکورہ کی تشریح فمن کان یَرْجُوْجو اللہ کا بےکیف قرب اور نزول خداوندی کا خواستگار ہے اور اس بےکیف وصل کا امیدوار ہے کہ مرتبۂ قاب و قوسین و ادنیٰ پر پہنچ جائے فَلْیَعْمَلَ عَمَلاً صَالِحاً تو نیک کام کرے یعنی پہلے نفس اور نفس کے عیوب کو فنا کر دے اس کے بعد نیک کام کرے عیوب نفس نیک عمل کو تباہ کردیتے ہیں ‘ عمل میں صلاح فناء نفس کے بعد ہی پیدا ہوتی ہے ‘ وَلاَ یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبَّہٖ اَحَدًا اور کسی کو اپنے رب کی عبادت میں شریک نہ کرے یعنی اللہ کے سوا اس کے دل کا تعلق کسی سے نہ رہے ‘ نہ علمی تعلق نہ محبت کا تعلق (نہ عقلی تعلق نہ جذباتی تعلق) علمی تعلق کا نام ذکر ہے اور ذکر عبادت ہے اور محبت مقتضی عبادت ہے محبوب معبود ہوتا ہے ‘ عبادت کا معنی ہے انتہائی فروتنی اور اپنے کو حقیر سمجھنا اور محبوب کے سامنے انتہائی فروتنی کرنا ہے (گویا اس کی پوجا کرنا ہے) پس عبادت میں شرک نہ کرنے کا مطلب ہوا ‘ دل کا کسی قسم کا تعلق غیر اللہ سے نہ رکھنا۔ ایک شبہ اللہ کے سوا دوسروں سے دل کا علمی تعلق تو اولیاء و انبیاء کا بھی ہوتا ہے۔ ازالہ فناء قلب کے بعد جو علم حاصل ہوتا ہے اس کا محل قلب نہیں ہوتا اس وقت تو قلب پر تجلیات رحمن کا نزول ہوتا ہے لیکن مادۂ تکلیف چونکہ باقی رہتا ہے (بندہ اس وقت بھی مکلف ہی ہوتا ہے) اس لئے دوسری چیز سے اس کا تعلق باقی رہتا ہے (حقیقی آویختگی تو کسی چیز سے باقی نہیں رہتی) ۔ فصل حضرت ابو درداء راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سورت کہف کے شروع کی دس آیات جو یاد رکھے گا اللہ اس کو فتنۂ دجال سے محفوظ رکھے گا۔ رواہ احمد و ابو داؤد و مسلم و النسائی۔ ترمذی کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے۔ سورة کہف کے شروع کی تین آیات جو شخص پڑھے گا (یعنی پڑھتا رہے گا) فتنۂ دجال سے محفوظ رہے گا۔ ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح کہا ہے ‘ احمد ‘ مسلم اور نسائی کی دوسری روایت اس طرح ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص سورة کہف کے آخر کی دس آیات پڑھے گا دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ سہل بن معاذ نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص سورة کہف کے شروع (کی آیات) اور آخر (کی آیات) کو پڑھے گا ‘ قدم سے لے کر سر تک اس کے لئے نور ہی نور ہوگا (یعنی وہ سراسر نور ہوگا) اور جو پوری سورة پڑھے گا اس کے لئے زمین سے آسمان تک نور ہوگا۔ رواہ البغوی ‘ ابن السنی نے عمل الیوم واللیلۃ میں اور امام احمد نے مسند میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص خوابگاہ میں (سوتے وقت) سورة کہف پڑھے گا اس کے لئے سونے کی (پوری) حالت میں ایک نور ہوگا جو خوابگاہ سے مکہ تک جگمگائے گا اس نور کے اندر فرشتے بھرے ہوں گے جو اٹھنے کے وقت تک اس کے لئے دعاء رحمت کرتے رہیں گے اگر اس کی خوابگاہ مکہ میں ہوگی تو خوابگاہ سے بیت المعمور تک اس کے لئے نور جگمگائے گا جس کے اندر فرشتے بھرے ہوں گے جو بیدار ہونے تک اس کے لئے دعائے رحمت کرتے رہیں گے۔ اخرجہ ابن مردویہ۔ حضرت عمر بن خطاب راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے رات کو فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْآ۔۔ سے آخر تک پڑھا اس کے لئے عدن سے مکہ تک نور ہوگا جس کے اندر فرشتے بھرے ہوں گے۔ (ازالۃ الخفاء) ۔ حضرت ابو سعید خدری راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے جمعہ کے روزہ سورة کہف پڑھی اس کے لئے اس جمعہ سے اگلے جمعہ تک ایک نور چمکتا رہے گا۔ رواہ الحاکم و صحیح والبیہقی فی الدعوات الکبیر ‘ بیہقی نے شعب الایمان میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے جس نے جمعہ کے روز سورة کہف پڑھی تو اس کے پاس سے کعبہ تک اس کے لئے نور چمکتا رہے گا۔ حضرت براء بن عازب راوی ہیں کہ ایک شخص سورة کہف پڑھ رہا تھا اس پر ایک (نورانی) بادل چھایا ہوا تھا جو چکر کھا رہا تھا اور اس شخص کے قریب آ رہا تھا ‘ ایک گھوڑا قریب ہی رسیوں سے بندھا ہوا تھا وہ یہ منظر دیکھ کر بدکنے لگا (جب وہ شخص پڑھنے سے رکتا تھا گھوڑا بھی بدکنا موقوف کردیتا تھا پھر وہ شخص پڑھتا تھا تو گھوڑا بھی بدکتا تھا) صبح کو خدمت گرامی میں حاضر ہو کر اس شخص نے یہ سرگزشت بیان کیا فرمایا وہ (نور) سکینہ تھا جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوا تھا۔ متفق علیہ۔ اللہ کی مدد سے سورة کہف کی تفسیر بروزہ چہار شنبہ 15 / ط 1202 ھ ؁ کو ختم ہوئی بحمدللہ وعونہ تفسیر سورة کہف کا ترجمہ مع تشریحی اضافات 6 / ح 1388 ھ ؁ کو ختم ہوا۔
Top