Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 81
فَاَرَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَیْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً وَّ اَقْرَبَ رُحْمًا
فَاَرَدْنَآ : پس ہم نے ارادہ کیا اَنْ يُّبْدِ : کہ بدلہ دے لَهُمَا : ان دونوں کو رَبُّهُمَا : ان کا رب خَيْرًا : بہتر مِّنْهُ : اس سے زَكٰوةً : پاکیزگی وَّاَقْرَبَ : اور زیادہ قریب رُحْمًا : شفقت
تو ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کی جگہ ان کو اور (بچّہ) عطا فرمائے جو پاک طینتی میں اور محبت میں اس سے بہتر ہو
فاردنا پس ہم نے چاہا۔ حضرت خضر نے جمع کا صیغہ بول کر اپنے ساتھ ارادہ کرنے میں اللہ کو شریک بنا لیا اور ظاہر ہے کہ اللہ کے ارادے کا تعلق اللہ کے فعل سے ہوسکتا ہے لیکن خضر کے ارادے کا تعلق اللہ کے فعل سے ہوجائے یہ ناممکن ہے۔ خضر کے ارادے سے اللہ کا فعل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ارادہ کا معنی اس جگہ حقیقی نہیں بلکہ چاہنا مراد ہے۔ ان یبدلہما ربہما کہ ان کا رب (اس لڑکے کا) عوض عطا فرما دے اوّل لڑکے کو ہلاک کرنے کی جگہ دوسرے لڑکے کو پیدا کردینا پہلے لڑکے کے ہلاک ہونے کا عوض اور بدل تھا اور ہلاک کرنے کے مرتکب حضرت خضر تھے مگر دوسرے لڑکے کو پیدا کرنا خالص اللہ کا کام تھا اس میں حضرت خضر کے فعل کو دخل نہ تھا اس لئے یُبْدِلَ فعل کی نسبت خالص اللہ کی طرف کی۔ یُبْدِلَکی بجائے یُبَدِّلَبھی متواتر قراءت ہے۔ ابدال اور تبدیل دونوں ہم معنی ہیں بغوی نے لکھا ہے کہ تبدیل عام ہے نفس شئی کو ہی بدل دینا یا اس کی حالت کو بدل دینا دونوں کو تبدیل کہتے ہیں اور ابدال اصل شئی کے بدلنے کو کہتے ہیں مگر بغوی کی یہ تحقیق غلط ہے اگر ایسا ہوتا تو دسری قراءت متواتر نہ ہوتی دونوں قراءتوں کو جمع کرنا ناممکن ہوجائے گا (کیونکہ اختلاف قراءت سے معنی میں تغیر آجائے گا) خیرا منہ زکوٰۃ جو اس سے زیادہ (گناہوں اور بدکاریوں سے) پاک ہو۔ واقرب رحما۔ اور (ماں باپ پر) مہربانی اور رحم کرنے کے لحاظ سے (والدین سے) بڑا قرب رکھنے والا ہو۔ رُحم بمعنی رحمت ہے۔ بعض علماء نے رحم کو رحم سے مشتق مان کر قرابت ترجمہ کیا ہے قتادہ نے کہا بڑا صلۂ رحم کرنے والا اور ماں باپ کا بڑا فرماں بردار ‘ خدمت گزار۔ بغوی نے کلبی کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے اس لڑکے کے عوض اس کے والدین کو ایک لڑکی عطا فرمائی جس سے ایک پیغمبر نے نکاح کیا اور اس کے بطن سے ایک نبی پیدا ہوا جس نے ایک امت کو ہدایت یافتہ بنا دیا ‘ حضرت جعفر بن محمد نے فرمایا اللہ نے والدین کو ایک لڑکی دی جس کی نسل سے ستّرپیغمبر پیدا ہوئے۔ ابن جریج نے کہا اس کے عوض اللہ نے ایک فرماں بردار مسلم لڑکا عنایت کیا ‘ ابن ابی شیبہ ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے عطیہ کا قول نقل کیا ہے کہ ایک لڑکی اللہ نے ان کو دی جس کے بطن سے پیغمبر پیدا ہوا حضرت ابن عباس کا ایک قول بھی اسی طرح روایت میں آیا ہے ‘ ابن المنذر نے دوسری سند سے یوسف بن عمر کے حوالہ سے بیان کیا کہ اللہ نے اس لڑکے کے عوض ایک لڑکی عطا فرمائی جس سے بہت پیغمبر پیدا ہوئے۔ یہ قول بخاری نے اپنی تاریخ میں اور ترمذی و حاکم نے حضرت ابو درداء کی روایت سے مرفوعاً بیان کیا ہے اور حاکم نے حضرت ابو درداء ؓ کی روایت سے مرفوعاً بیان کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح بھی قرار دیا ہے۔ مطرف نے کہا جب وہ لڑکا پیدا ہوا تھا تو اس کے ماں باپ خوش ہوئے تھے ‘ پھر جب وہ قتل ہوگیا تو والدین کو غم ہوا اگر وہ زندہ رہتا تو ماں باپ کی تباہی یقینی تھی ‘ آدمی کو چاہئے کہ اللہ کے حکم پر راضی رہے ‘ اللہ مؤمن کے لئے اگر ناگوار فیصلہ بھی کرتا ہے تب بھی مؤمن کے لئے اس بات سے بہتر ہوتا ہے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے میں کہتا ہوں مؤمن پر لازم ہے کہ وہ اپنی پسند اور ناپسند دونوں میں اللہ کی مخفی تدبیر سے ڈرتا رہے اس کی رحمت کا امیدوار رہے اور اسی سے پناہ کا طلب گار رہے۔ اللہ کے حکم پر اعتراض نہ کرے ‘ ہر حال میں اس کے فیصلہ پر راضی رہے۔
Top