Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 88
وَ اَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهٗ جَزَآءَ اِ۟لْحُسْنٰى١ۚ وَ سَنَقُوْلُ لَهٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًاؕ
وَاَمَّا : اور اچھا مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لایا وَعَمِلَ : اور اس نے عمل کیا صَالِحًا : نیک فَلَهٗ : تو اس کے لیے جَزَآءَ : بدلہ الْحُسْنٰى : بھلائی وَسَنَقُوْلُ : اور عنقریب ہم کہیں گے لَهٗ : اس کے لیے مِنْ : متعلق اَمْرِنَا : اپنا کام يُسْرًا : آسانی
اور جو ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا اس کے لئے بہت اچھا بدلہ ہے۔ اور ہم اپنے معاملے میں (اس پر کسی طرح کی سختی نہیں کریں گے بلکہ) اس سے نرم بات کہیں گے
واما من امن وعمل صالحا فلہ جزآء الحسنی اور جو ایمان لے آئے گا اور اچھے کام کرے گا اس کے لئے نیکی کا اچھا بدلہ ہوگا ‘ یعنی اللہ کے حکم کی تعمیل میں یا اللہ کی طرف سے اختیار ملنے کے بعد جب اس نے دعوت اسلام دے دی تو کہا کہ میری اس دعوت کے بعد جو کوئی کفر پر جما رہا اور شرک کی صورت میں اپنے اوپر خود ظلم کرتا رہا تو میں اور میرے ساتھی اس کو قتل کردیں گے اور آخرت میں اللہ اس کو ایسا عذاب دے گا جو کسی کے علم میں نہیں وہ اتنا عظیم ترین اور غیر معمولی ہوگا کہ (اس دنیا میں) کسی کے سامنے نہیں آیا۔ نیک کام کرنے سے مراد ہے تقاضاء ایمان کے موافق عمل کرنا۔ وسنقول لہ امرنا یسرا۔ اور ہم اپنے برتاؤ میں اس کے لئے آسان بات کہیں گے۔ یُسرآسان سہولت والا جو دشوار نہ ہو۔ مجاہد نے یسراً کا ترجمہ کیا معروفاً اچھا بھلا۔ اللہ نے ذوالقرنین کو (براہ راست) خطاب کیا اور وحی بھیجی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نبی تھا ‘ صاحب وحی تھا۔ بغوی نے لکھا ہے صحیح ترین بات یہ ہے کہ ذوالقرنین نبی نہیں تھا اور وحی سے مراد اس جگہ الہام ہے (جیسا کہ اولیاء اللہ کو ہوتا ہے) ۔ میں کہتا ہوں ممکن ہے کسی پیغمبر کی معرفت ذوالقرنین کو یہ پیام ملا اور بعض انبیاء بنی اسرائیل میں اس کے ساتھ بھی کسی نبی کو اس کی اصلاح اور درستگی قائم رکھنے کے لئے لگا دیا گیا ہو۔
Top