Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 43
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
ابّا مجھے ایسا علم ملا ہے جو آپ کو نہیں ملا ہے تو میرے ساتھ ہوجیئے میں آپ کو سیدھی راہ پر چلا دوں گا
یا ابت انی قد جآءنی من العلم ما لم یا تک فاتبعنی اہدک صراطا سویا۔ اے میرے باپ میرے پاس ایسا علم پہنچا ہے جو آپ کے پاس نہیں پہنچا آپ میرے کہنے پر چلئے میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا۔ یعنی اللہ کی ذات صفات اور اس کے احکام کو جو علم مجھے ملا ہے وہ آپ کو نہیں ملا۔ لہٰذا دین و مذہب کے معاملہ میں آپ میری بات مانیں اور اس کے موافق چلیں میں آپ کو مذہبی راستہ سیدھا بتاؤں گا جو آپ کو فلاح دارین تک لے جائے گا۔ حضرت ابراہیم نے اپنے آپ کو ہر طرح سے اونچا عالم اور باپ کو صراحت کے ساتھ جاہل نہیں فرمایا ‘ بلکہ ایک ہم سفر رفیق کی طرح راستہ بتانے کا اظہار کیا اور اپنے کو زیادہ راہ شناس بتایا۔ اس سے آگے ذیل کی آیت میں بیان کیا کہ جس راستہ پر آپ چل رہے ہیں (نہ فقط یہ کہ وہ نفع رساں نہیں ہے بلکہ ضرر رساں بھی ہے) وہ شیطان کا راستہ ہے اور شیطان رحمن کا نافرمان ہے۔ اس لئے اس کی پوجا نہ کرو 1 ؂۔
Top