Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 64
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ١ۚ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ
وَمَا : اور ہم نَتَنَزَّلُ : نہیں اترتے اِلَّا : مگر بِاَمْرِ : حکم سے رَبِّكَ : تمہارا رب لَهٗ : اس کے لیے مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا : جو ہمارے ہاتھوں میں ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَنَا : ہمارے پیچھے وَمَا : اور جو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے رَبُّكَ : تمہارا رب نَسِيًّا : بھولنے والا
اور (فرشتوں نے پیغمبر کو جواب دیا کہ) ہم تمہارے پروردگار کے حکم سوا اُتر نہیں سکتے۔ جو کچھ ہمارے آگے ہے اور پیچھے ہے اور جو ان کے درمیان ہے سب اسی کا ہے اور تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں
وما نتنزل الا بامر ربک اور ہم نہیں اترتے مگر آپ کے رب کے حکم سے۔ اصل کلام اس طرح تھا ‘ جبرئیل ( علیہ السلام) محمد ﷺ سے کہہ دو کہ ہم بغیر رب کے حکم کے نہیں اترا کرتے۔ تنزل (باب تفعل) کے بمعنی نزول بھی آتا ہے اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اترنا بھی تنزل کا مفہوم ہے کیونکہ باب تفعل باب تفعیل کا مطاوع ہوتا ہے اور تنزیل کا معنی ہے تھوڑا تھوڑا اتارنا پس تنزل کا معنی ہوا وقفہ وقفہ کے بعد اترنا۔ کبھی تنزیل انزال (اتارنا) کا ہم معنی بھی آتا ہے یعنی اس کے معنی میں آہستہ آہستہ اور قدرے قدرے کا مفہوم نہیں ہوتا۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک بار جبرئیل ( علیہ السلام) کے آنے میں چالیس روز کا وقفہ ہوگیا۔ ابن مردویہ نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سا مکان اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور کون سی جگہ ہے جس سے اللہ کو سب سے زیادہ نفرت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا مجھے نہیں معلوم ‘ میں جبرئیل ( علیہ السلام) سے دریافت کروں گا۔ اس کے بعد جبرئیل کو آنے میں (ایک لمبی مدت تک) تاخیر ہوگئی ‘ پھر جب جبرئیل ( علیہ السلام) آئے تو حضور ﷺ نے ان سے فرمایا آپ نے آنے میں بڑی مدت لگا دی مجھے تو یہ خیال ہونے لگا کہ شاید میرا رب مجھ سے کچھ ناراض ہوگیا ‘ اس کے جواب میں حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا وَمَا نَتَنَزَّلُ الاَّ بِاَمْرِرَبَّکَ ۔ ابو نعیم نے دلائل میں اور ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس ؓ : کی روایت سے بیان کیا کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ سے جب اصحاب کہف اور ذوالقرنین اور روح کے متعلق دریافت کیا اور آپ کو اس کا جواب معلوم نہ تھا (اس لئے آپ نے دوسرے روز جواب دینے کا وعدہ کرلیا) آپ کو امید تھی کہ وحی سے جواب معلوم ہوجائے گا لیکن جبرئیل ( علیہ السلام) پندرہ روز تک نہیں آئے اور کوئی وحی بھی نہیں آئی پندرہ روز کے بعدجب جبرئیل ( علیہ السلام) آئے تو آپ نے ان سے تاخیر نزول کا شکوہ کیا۔ الخ بغوی نے ضحاک ‘ عکرمہ ‘ مقاتل اور کلبی کے حوالہ سے بیان کیا کہ جب قوم والوں نے رسول اللہ ﷺ سے اصحاب کہف اور ذوالقرنین اور روح کے متعلق سوال کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا میں کل کو بتادوں گا آپ نے اس وعدے کے ساتھ انشاء اللہ نہیں فرمایا ‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جبرئیل مدت تک نہیں آئے اور حضور ﷺ : کو (جبرئیل کے نہ آنے اور جواب معلوم نہ ہونے سے) تکلیف ہونے لگی پھر کچھ دنوں کے بعد جب جبرئیل آئے تو حضور ﷺ نے ان سے فرمایا آپ نے بہت دیر کردی ‘ میرا تو خیال خراب ہونے لگا تھا میں آپ کا بےچینی کے ساتھ انتظار کرتا رہا ‘ جبرئیل نے کہا میں بھی آپ سے ملنے کا مشتاق تھا لیکن میں حکم کا بندہ ہوں مجھے جب بھیجا جاتا ہے آجاتا ہوں ‘ روک دیا جاتا ہے رک جاتا ہوں اس پر یہ آیت اور آیات والضحّٰی وَاللَّیْلِ اِذَا سَجٰی مَا وََدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰینازل ہوئیں۔ لہ ما بین ایدینا وما خلفنا وما بین ذلک وما کان ربک نسیا۔ اسی کی ملک ہیں ہمارے آگے کی سب چیزیں اور ہمارے پیچھے کی سب چیزیں اور ان کے درمیان کی سب چیزیں اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں۔ لَہٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَاسے مراد ہے وقت حاضر سے آئندہ قیامت تک بلکہ ابدالآباد تک ہونے والے واقعات امور ‘ اشیاء ‘ حوادث ‘ دنیوی ہوں یا اخروی اور مَا حَلَفْنَاسے مراد ہیں ماضی کے احوال ‘ واقعات ‘ حوادث اور امور و اشیاء۔ اور مَا بَیْنَ ذٰلِکَسے مراد ہے وقت حاضر اور اس میں موجود تمام اشیاء و احوال بعض علماء کے نزدیک مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَاسے مراد ہے زمین جب ہم اس پر اترنا چاہیں اور خَلَفْنَاسے مراد ہے آسمان جب ہم اس سے اترنے کا ارادہ کریں اور اترنے لگیں اور مَا بَیْنَ ذٰلِکَسے مراد ہے درمیانی خلاء اور فضاء۔ آپ کا رب بھولنے والا نہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ کا رب آپ کو بالکل چھوڑ دے اور آپ کے پاس وحی نہ بھیجے اور ہم بالکل آپ کے پاس نہ آئیں ایسا نہیں ہے بلکہ تاخیر وحی اللہ کی حکمت پر مبنی ہے جس سے وہی واقف ہے۔
Top