Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 77
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًاؕ
اَفَرَءَيْتَ : پس کیا تونے دیکھا الَّذِيْ : وہ جس نے كَفَرَ : انکار کیا بِاٰيٰتِنَا : ہمارے حکموں کا وَقَالَ : اور اس نے کہا لَاُوْتَيَنَّ : میں ضرور دیا جاؤں گا مَالًا : مال وَّوَلَدًا : اور اولاد
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہنے لگا کہ (اگر میں ازسرنو زندہ ہوا بھی تو یہی) مال اور اولاد مجھے (وہاں) ملے گا
ویزید اللہ الذین اہتدوا ہدی اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہوجاتے ہیں۔ اللہ ان کے ایمان میں مزید ترقی دیتا ہے۔ ان کے مراتب قرب میں اضافہ کرتا ہے ‘ آیات مذکورہ کا خلاصہ یہ ہے کہ کافروں کی دنیا میں مالداری اور راحت اندوزی اور مؤمنوں کی ناداری و بدحالی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کافر اللہ کے محبوب ہیں اور مؤمن مردود بلکہ مؤمنوں کے لئے دنیوی عیش و دولت کی کمی کو اللہ ان کی ہدایت و مراتب قرب کی ترقی کا ذریعہ بنا دیتا ہے اور کافروں کی گمراہی کے باوجود خوش حالی اللہ کی طرف سے ایک ڈھیل ہوتی ہے تاکہ ان کی گمراہی میں مزید اضافہ ہو۔ والبقیت الصلحت خیر عند ربک ثوابا وخیر مردا۔ اور جو نیک کام ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں وہ آپ کے رب کے نزدیک ثواب میں بھی بہتر ہیں اور انجام میں بھی۔ الباقیات الصالحات سے مراد ہیں وہ نیک اعمال جن کا فائدہ کرنے والوں کو ہمیشہ ہمیشہ پہنچتا رہے گا۔ یعنی کافروں کو جو نعمتیں اللہ نے عطا فرمائی ہیں وہ (ناقص ہونے کے علاوہ) فانی بھی ہیں ‘ جن نعمتوں پر وہ پھولے ہوئے ہیں ان سے اہل ایمان کو نیک اعمال کا ملنے والا ثواب مآل اور انجام میں بہت بہتر ہے۔ خیر اسم تفضیل کا صیغہ ہے جس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید کافروں کا انجام بھی اللہ کے نزدیک کچھ اچھا ہوگا ‘ مؤمنوں کے انجام کے برابر نہ سہی ان سے کم ہی سہی بہرحال کچھ تو اچھا ہوگا اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تفضیل سے تفضیل اضافی مراد نہیں ہے ‘ بلکہ فی نفسہٖ بہتری کی فراوانی مراد ہے جیسے بولتے ہیں ‘ موسم گرما موسم سرما سے زیادہ گرم ہوتا ہے یعنی موسم سرما سردی میں جس طرح زیادہ ہوتا ہے اسی طرح گرمی کا موسم گرمی میں موسم سرما سے زیادہ ہوتا ہے۔ شیخین نے حضرت خباب بن الارت کا بیان نقل کیا ہے حضرت خباب نے بیان کیا میں لوہاری کا کام کرتا تھا ‘ میں نے عاص بن وائل کا کچھ کام بنایا اور میری مزدوری اس کے پاس جمع ہوگئی ایک روز مزدوری مانگنے میں اسکے پاس گیا ‘ عاص نے جواب دیا خدا کی قسم جب تک تو محمد ﷺ : کا انکار نہیں کرے گا ‘ میں (تیرا قرض) ادا نہیں کروں گا ‘ میں نے کہا خوب سن لے خدا کی قسم جب تو مر کر دوبارہ زندہ ہو کر اٹھے گا اس وقت تک بھی میں کفر نہیں کروں گا۔ عاص بولا کیا میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔ میں نے کہا ہاں ‘ عاص نے کہا تو پھر میرے پاس وہاں مال بھی ہوگا اور اولاد بھی ‘ میں وہیں تیرا قرض چکا دوں گا اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ افرء یت الذی کفر بایتنا وقال لاوتین مالا وولدا۔ کیا آپ نے اس شخص کو (یعنی عاص بن وائل کو) دیکھا ‘ جس نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا مجھے ضرور مال اور اولاد (دوبارہ زندگی میں) دیا جائے گا۔ بغوی نے لکھا ہے وُلُد اور وَلَد دونوں ہم معنی ہیں جیسے عرب اور عرب اور عجم اور عجم بعض نے کہا ولد جمع ہے اور ولد مفرد جیسے اسد جمع ہے (اور اسد (مفرد ہے)
Top