Maarif-ul-Quran - Maryam : 77
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًاؕ
اَفَرَءَيْتَ : پس کیا تونے دیکھا الَّذِيْ : وہ جس نے كَفَرَ : انکار کیا بِاٰيٰتِنَا : ہمارے حکموں کا وَقَالَ : اور اس نے کہا لَاُوْتَيَنَّ : میں ضرور دیا جاؤں گا مَالًا : مال وَّوَلَدًا : اور اولاد
بھلا تو نے دیکھا اس کو جو منکر ہوا ہماری آیتوں سے اور کہا مجھ کو مل کر رہے گا مال اور اولاد
خلاصہ تفسیر
(اے محمد ﷺ بھلا آپ نے اس شخص (کی حالت) کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کے ساتھ (جن کا حق یہ ہے کہ ان پر ایمان لایا جاتا جن میں سے آیات بعث بھی ہیں) کفر کرتا ہے اور (علیٰ سبیل الاستہزاء) کہتا ہے کہ مجھ کو (آخرت میں) مال اور اولاد ملیں گے (مطلب یہ کہ اس کی حالت بھی قابل تعجب ہے آگے اس کا رد ہے کہ) کیا یہ شخص غیب پر مطلع ہوگیا ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد (اس بات کا) لے لیا ہے (یعنی اس دعوے کا علم آیا بلا واسطہ اسباب ہوا ہے کہ علم غیب ہے یا بواسطہ اسباب ہوا ہے پھر چونکہ وہ دعویٰ حکم عقلی تو ہے نہیں بلکہ امر نقلی ہے۔ اس لئے صرف دلیل نقلی کہ اخبار خداوندی ہے اس کی دلیل ہو سکتی ہے سو دونوں طریق مفقود ہیں اول تو عقلاً بھی ممتنع ہے اور دوسرا وقوعاً منتفی ہے) ہرگز نہیں (محض غلط کہتا ہے اور) ہم اس کا کہا ہوا بھی لکھ لیتے ہیں (اور وقت پر یہ سزا دیں گے کہ) اس کے لئے عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے اور اس کی کہی ہوئی چیزوں کے ہم مالک رہ جاویں گے (یعنی وہ تو دنیا سے مر جاوے گا اور اموال و اولاد پر کوئی اس کا اختیار نہ رہے گا ہم ہی سب کے مالک رہیں گے اور قیامت میں ہم اس کو نہ دیں گے بلکہ) وہ ہمارے پاس (مال و اولاد سے) تنہا ہو کر آوے گا اور لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر اور معبود تجویز کر رکھے ہیں تاکہ ان کے لئے وہ (عند اللہ) باعث عزت ہوں (جیسا اس آیت میں حکایت ہے یَقُولُونَ ھٓوُلَآءِ شُفَعَآوُنَا عند اللّٰہِ سو ایسا) ہرگز نہیں ہوگا بلکہ وہ تو (قیامت میں خود) ان کی عبادت ہی کا انکار کر بیٹھیں گے (جیسا سورة یونس کے تیسرے رکوع میں گزر چکا قال شُرَکَآوُھُم مَا کُنتُم اِیَّانَا تَعبُدُونَ) اور (الٹے) ان کے مخالف ہوجاویں گے، (قالاً بھی جیسا گزرا اور حالاً بھی کہ بجائے عزت کے سبب ذلت ہوجاویں گے اور معبودین میں اصنام بھی ہوں گے سو ان کا ناطق ہونا جیسا یکفرون کا مقتضا ہے مثل نطق جوارح کے مستبعد و مستغرب نہیں)

معارف و مسائل
لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا، بخاری و مسلم میں حضرت خباب بن الارت کی روایت ہے کہ ان کا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمہ تھا یہ ان کے پاس تقاضہ کے لئے گئے اس نے کہا میں تو تمہارا قرض اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد ﷺ کے ساتھ کفر و انکار کا معاملہ نہ کرو۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا جب تک کہ تم مرو پھر زندہ ہو۔ عاص بن وائل نے کہا کہ اچھا کیا میں مر کر پھر زندہ ہوں گا۔ اگر ایسا ہے تو بس تمہارا قرض بھی اسی وقت چکاؤں گا جب دوبارہ زندہ ہوں گا کیونکہ اس وقت بھی میرے پاس مال اور اولاد ہوں گے۔ (قرطبی)
Top