Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 114
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآئِفِیْنَ١ؕ۬ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ ۔ مَنَعَ : سے جو۔ روکا مَسَاجِدَ : مسجدیں اللہِ : اللہ اَنْ : کہ يُذْکَرَ : ذکر کیا جائے فِیْهَا : اس میں اسْمُهُ : اس کا نام وَسَعٰى : اور کوشش کی فِیْ : میں خَرَابِهَا : اس کی ویرانی اُولٰئِکَ : یہ لوگ مَا کَانَ : نہ تھا لَهُمْ : ان کے لئے اَنْ ۔ يَدْخُلُوْهَا : کہ۔ وہاں داخل ہوتے اِلَّا : مگر خَائِفِیْنَ : ڈرتے ہوئے لَهُمْ : ان کے لئے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ عَظِیْمٌ : بڑا عذاب
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون، جو خدا کی مسجدوں میں خدا کے نام کا ذکر کئے جانے کو منع کرے اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو۔ان لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ ان میں داخل ہوں، مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ ( اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو منع کرے خدا کی مسجدوں میں) وَ مَن اَظْلَمُ میں مَنْ استفہامیہ مبتدا ہے اور اَظْلَمُ اس کی خبر ہے کفار نے اگرچہ ایک ہی مسجد سے روکا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں بصیغہ جمع یعنی مساجد اس لیے ذکر فرمایا کہ حکم تو عام ہی ہے اگرچہ شان نزول خاص ہے۔ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ( کہ لیا جائے ان میں خدا کا نام) یہ مَنَعَ کا مفعول ثانی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : وَ مَا منَعَنَا اَنْ نُّرْسِلَ میں ان نرسل۔ مَنَعَنَا کا دوسرا مفعول ہے ان یذکر پر سے من جارہ محذوف ہے یا ان یذکر مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِهَا ( اور کوشش کرے ان کے اجاڑنے کی) اجاڑنے میں کوشش کرنا یہ ہے کہ ذکر اللہ اس میں نہ ہونے دے۔ علامہ بغوی نے ابن عباس اور عطاء سے اس کی تفسیر اسی طرح نقل کی ہے اور قتادہ اور سدی سے یہ بھی منقول ہے کہ ممن منع مساجد اللہ سے مراد طیطوس بن اسیسیانوس رومی اور اس کے متبعین ہیں۔ اس کا قصہ یہ ہوا تھا کہ اس کو یہود سے بغض تھا اس لیے اس نے بخت نصر بابلی کی اعانت کی اور سب نے جمع ہو کر یہود سے قتال کیا اور ان میں سے بڑے بڑے سواروں کو قتل کر ڈالا اور ان کی اولاد کو قید کرلیا اور تورات کو جلا دیا اور بیت المقدس کو اجاڑ دیا اور اس میں سور ذبح کئے اور مردار ڈالے۔ بیت المقدس نصارٰی کے حج اور زیارت کی جگہ تھی۔ میں کہتا ہوں کہ شاید اس کے بیان فرمانے سے یہ غرض ہو کہ نصارٰی کو ان کے آباؤ و اجداد کے کرتوت یاد دلا کر عار دلائیں کیونکہ یہ بھی تو آخر اپنے اجداد کے افعال سے راضی ہیں جیسا کہ صدر پارہ میں گو سالہ کی عبادت و دیگر حرکات سے یہود کو طعن اور عار دلائی گئی ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ ( یہ لوگ اس لائق نہیں کہ گھسنے پائیں مسجدوں میں مگر ڈرتے ڈرتے) یعنی ان کو اس میں داخل ہونا اللہ کے علم اور قضا میں شایاں نہیں مگر ڈرتے ڈرتے۔ اس آیت میں مؤمنین سے نصرت اور مساجد کے مشرکین اور کفار کے ہاتھوں سے چھوٹنے کا وعدہ ہے چناچہ جب مکہ فتحہ ہوا تو حق تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پورا فرمادیا۔ یعنی بیت اللہ ان کے پنجوں سے چھوٹ گیا اور حضور ﷺ نے اعلان عام کرادیا کہ خبر دار اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرنے پائے اور نیز اس وعدہ کا ایفا اس طور پر ہوا کہ روم اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کی خلافت میں فتح کرایا اور بیت المقدس بالکل خراب تھا اس کو مسلمانوں نے تعمیر کیا اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ آیت یعنی : اولٓءِکَ ما کان لھم۔۔ خبر بمعنی امر یا نہی ہے اور معنی اس تقدیر پر یا تو یہ ہیں کہ ان کفار سے یہاں تک قتال کرو کہ ان میں سے کوئی مساجد میں جانے نہ پائے اور اگر جائے تو قتل اور قید سے ڈرتا ڈرتا جائے اور یا یہ کہ ان کو مساجد میں داخل ہونے کی قدرت مت دو اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ ان کفار کے لیے تو مساجد میں جانا ہی مناسب نہیں اور اگر چاہیں تو خوف اور خضوع سے جائیں چہ جائیکہ اس کے اجاڑنے کے درپے ہوں۔ اس صورت میں جملہ اولٰءِکَ مَا کَان لھم منع اور سعٰی کے فاعل سے حال ہوگا۔ لَھُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ( ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب) دنیا کی رسوائی تو قتل اور قید ہونا اور جزیہ ادا کرنا ہے اور آخرت کا بڑا عذاب یہ ہے کہ اپنے کفر اور ظلم کی وجہ سے ہمیشہ کی آگ میں رہیں گے۔
Top