Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ : نہیں الْبِرَّ : نیکی اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم کرلو وُجُوْھَكُمْ : اپنے منہ قِبَلَ : طرف الْمَشْرِقِ : مشرق وَالْمَغْرِبِ : اور مغرب وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور دن الْاٰخِرِ : آخرت وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالْكِتٰبِ : اور کتاب وَالنَّبِيّٖنَ : اور نبی (جمع) وَاٰتَى : اور دے الْمَالَ : مال عَلٰي حُبِّهٖ : اس کی محبت پر ذَوِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنَ : اور مسکین (جمع) وَابْنَ السَّبِيْلِ : اور مسافر وَالسَّآئِلِيْنَ : اور سوال کرنے والے وَفِي الرِّقَابِ : اور گردنوں میں وَاَقَامَ : اور قائم کرے الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَى : اور ادا کرے الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَالْمُوْفُوْنَ : اور پورا کرنے والے بِعَهْدِهِمْ : اپنے وعدے اِذَا : جب عٰھَدُوْا : وہ وعدہ کریں وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے فِي : میں الْبَاْسَآءِ : سختی وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَحِيْنَ : اور وقت الْبَاْسِ : جنگ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ صَدَقُوْا : انہوں نے سچ کہا وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار
نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو (قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ خدا پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (خدا کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (خدا سے) ڈرنے والے ہیں
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ( نیکی یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلیا کرو) حفص اور حمزہ نے البر کو لیس کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب پڑھا ہے اور ان تولوا .... لیس کا اسم ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے اور دیگر قراء نے البر کو مرفوع پڑھا ہے اس صورت میں ترکیب برعکس ہوگی اللہ کے نزدیک جو فعل پسندیدہ ہو اس کو برکہتے ہیں۔ عبد الرزاق نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ یہود مغرب یعنی بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اور نصاریٰ مشرق کی طرف منہ کرتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حاصل آیت کا اس تقدیر پر یہ ہے کہ جس دین پر یہود و نصاریٰ ہیں یہ کوئی خوبی نہیں ہے کیونکہ ان کا قبلہ منسوخ اور ان کا دین کفر ہے اس لیے اس کی طرف منہ کرنا نیکی کی بات نہیں اور اس طرح ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ سے روایت کی ہے علامہ بغوی نے کہا ہے کہ قتادہ اور مقاتل کا بھی یہی قول ہے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت کے اندر مسلمان مخاطب ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتداء اسلام میں جس وقت تک فرائض اور احکام پوری طرح نازل نہ ہوئے تھے اگر آدمی توحید و رسالت کا اقرار کرلیتا تھا اور جدھر چاہتا منہ کرکے نماز پڑھ لیتا تھا اور سوائے اس کے کوئی عمل نہ کرتا تھا تو جنت میں جانے کے لیے اتنا ہی کافی تھا جب سرور عالم ﷺ نے ہجرت فرمائی اور حدود اور احکام اور فرائض نازل ہوئے اور شریعت خوب کا مل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے آیت : لیس البر الخ نازل فرمائی حاصل اس صورت میں یہ ہوگا کہ نیکی صرف یہی نہیں کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لو اور اس کے سوا کچھ عمل نہ کرو نیکی تو یہ ہے جو ہم بیان کرتے ہیں۔ علامہ محمد حسین بغوی نے کہا ہے ابن عباس اور مجاہد اور ضحاک کا بھی یہی قول ہے میں کہتا ہوں کہ ابن جریر اور ابن منذر نے بھی قتادہ سے اسی طرح روایت کی ہے میں کہتا ہوں کہ حق تعالیٰ کا منہ پھیرنے کے عنوان سے ذکر کرنا اور نماز پڑھنے کے الفاظ سے ذکر نہ کرنا اس پر قرینہ ہے کہ اس آیت کے مخاطب یہود اور نصاریٰ ہیں۔ مؤمنین نہیں ہیں چناچہ مؤمنین کو دوسرے مقام پر لَا یضیع ایمانکم (یعنی نہیں ضائع فرمائیں گے اللہ تعالیٰ تمہاری نماز کو) کے عنوان سے یاد فرمایا ہے۔ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ ( بلکہ نیکی ان کی ہے) نافع اور ابن عامر نے لکن کو مخفف پڑھا ہے اور البر کو دونوں جگہ مرفوع پڑھا ہے اور دیگر قراء نے مشدد اور منصوب پڑھا ہے۔ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ ( جو ایمان لائے اللہ پر) من امن کو بر پر حمل کرنے کے لیے ضرور ہے کہ مصدر بمعنی فاعل بطور مبالغہ لیا جائے یا اسم میں یا خبر میں مضاف مقدر مانا جائے۔ تقدیر عبارت یوں ہوگی : لٰکن البار یا ذالبر بر من امن آخری تقدیر۔ سیاق کے زیادہ موافق ہے۔ اللہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس کو جلال ذات اور کمال صفات میں یگانہ اعتقاد کرے اور حدوث کے عیب اور ضد و مثل سے پاک سمجھے اور جیسے اپنے آپ کو اس نے بتایا ہے ویسا ہی اعتقاد کرے۔ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ( اور روز آخرت پر) اس سے مراد یا تو قیامت کا دن ہے کیونکہ وہی سب سے پچھلا دن ہے اور یا قبور سے اٹھنے کے وقت سے ہمیشہ ہمیشہ تک مراد ہے اس میں حساب و کتاب میزان صراط جنت دوزخ شفاعت و مغفرت ثواب عذاب دائمی سب آگیا۔ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ ( اور فرشتوں پر) ملائکہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ یہ سمجھے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں نور سے پیدا ہوئے ہیں جسم و روح والے ہیں کسی کے ان میں دو دو بازو ہیں کسی کے تین تین کس کے چار چار رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل ( علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے اور نیز یہ اعتقاد رکھے کہ وہ نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں نہ نکاح کرتے ہیں ان کی روزی تسبیح اور تہلیل ہے اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو ان کو حکم ہوجاتا ہے وہی کرتے ہیں موت ان کو بھی آئے گی اور پھر مثل اوروں کے زندہ ہو کر اٹھیں گے اور بعض ان میں سے اللہ کے قاصد ہیں۔ انبیاء ( علیہ السلام) کے پاس وحی لاتے تھے اور ان کے اعمال کا بدلہ اللہ کی رضا مند ی اور مراتب قرب ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عند ذی العرش مکین یعنی وہ عرش والے کے نزدیک صاحب مرتبہ ہے اسی واسطے وہ اعمال کے ثواب لیتے ہیں جنت میں جانے کے محتاج نہیں بلکہ خودجہنم کے محافظ اور عذاب کے فرشتے بھی اپنے اپنے ثواب کو پورا پورا پالیں گے اس مقام پر یہ امر قابل یادداشت ہے کہ عوام مؤمنین فرشتوں سے افضل نہیں کیونکہ عام مؤمن تو اپنے ثواب اور بدلے کے لیے جنت میں جائیں گے اور فرشتے نہ جائیں گے ہاں یہ امر ضروری ہے کہ خواص بشر یعنی انبیاء اور رسل ( علیہ السلام) ملائکہ سے افضل ہیں کیونکہ جو تجلیات ذاتیہ اس مشت خاک کے ساتھ خاص ہیں وہ ان ہی کو نصیب ہوں گی ملائکہ اس دولت سے محروم رہیں گے کیونکہ ان کی پیدائش خاک سے نہیں ہے اور جاننا چاہئے کہ جس طرح فرشتوں کے اعمال کا ثواب اور بدلہ جنت میں جانے پر موقوف نہیں اسی طرح بعض برگزیدہ لوگوں کو بھی دنیا میں وہ نعمتیں اور دولتیں حاصل ہوجاتی ہیں کہ جو جنت میں ہوں گی چناچہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا ہے : وَ اٰتَیْنَاہُ اَجْرَہٗ فِی الدُّنْیَا وَ اِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ ( یعنی ہم نے ابراہم ( علیہ السلام) کو ان کا ثواب دنیا میں دے دیا تھا اور آخرت میں بیشک وہ نیک کاروں میں سے ہوں گے۔ وَالْكِتٰبِ ( اور کتاب پر) اس سے یا مطلق کتاب مراد ہے اس صورت میں سب آسمانی کتابیں اس میں داخل ہوجائیں گے۔ یا صرف قرآن پاک مراد ہے کیونکہ اس پر ایمان لانا تمام کتب سماویہ پر ایمان لانے کو مستلزم ہے۔ قرآن اور تمام کتب الہیہ سب اللہ کے کلام ہیں اور غیر مخلوق ہیں۔ اس میں اختلاف ہے کہ قرآن نام الفاظ کا ہے یا معنی کا یا دونوں کا تو حق یہی ہے کہ الفاظ اور معنی دونوں قرآن ہیں اور بعض علامات جو حدوث کی اس میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً الفاظ کا یکے بعد دیگرے زبان پر آنا اور کان میں پڑنا تو ان سے یہ لازم نہیں آتا کہ باری تعالیٰ کے اندر بھی یہ صفت کلام اسی طرح پائی جاتی ہو اللہ تعالیٰ اس سے پاک و منزہ ہیں۔ وَالنَّبِيّٖنَ ( اور پیغمبروں پر) پیغمبروں پر ایمان لانے میں یہ امر ملحوظ رہے کہ تمام انبیاء پر یکساں ایمان لائے کسی کے درمیان فرق نہ کرے سب سے پہلے ان میں آدم ( علیہ السلام) ہیں اور سب سے آخر اور تمام سے افضل ہمارے نبی محمد ﷺ ہیں۔ پیغمبروں پر ایمان لانے میں کسی عدد کا لحاظ کرے کیونکہ صحیح طریق سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انبیاء کس قدر ہیں چناچہ خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : منہم من قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَ مِنْہُمْ مَنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ ( بعض ان میں وہ ہیں جن کے احوال ہم نے آپ کو سنا دیئے اور بعض ایسے ہیں کہ جن کا قصہ نہیں سنایا اور بعض احادیث میں جو عدد وارد ہوئے ہیں تو وہ احادیث احاد ہیں اور احاد مفید قطعیت نہیں ہیں اور ایمان کا مدار ایسے نصوص پر ہے جو قطع اور یقین کا فائدہ دیں۔ انبیاء سب کے سب صغائر اور کبائر سے معصوم اور پاک ہیں اعتقادیات میں تو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں اگر مخالفت ہے تو فروع میں ہے کیونکہ ان میں نسخ جاری ہوسکتا ہے روافض کہتے ہیں کہ ائمہ پر بھی ایمان لانا ایمان کے مفہوم میں داخل ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس آیت سے ان کے اس مسلک کا بطلان ظاہر ہے کیونکہ ائمہ پر ایمان لانا اگر ایمان کی حقیقت میں داخل ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے جس طرح یہاں انبیاء اور ملائکہ وغیرہ پر ایمان لانے کو ذکر فرمایا ہے ائمہ پر بھی ایمان لانے کو ذکر فرماتے۔ واللہ اعلم۔ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ( اور دیا مال باوجود اس کی محبت کے) علٰی حبہٖ میں جار مجرور محلاً حال ہے اور ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اللہ معنی اس صورت میں یہ ہوں گے “ دیا مال اللہ تعالیٰ کی محبت میں کیونکہ جو مال خالص اللہ تعالیٰ کے واسطے دیا جاتا ہے تو اس کا ثواب اللہ تعالیٰ دیتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے لیے نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز اوّل جن کا فیصلہ ہوگا تین شخص ہوں گے تیسرا ان میں وہ ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں وسعت اور ہر قسم کا مال دیا ہوگا وہ پیش کیا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ یاد ہے ہم نے تجھ کو فلاں فلاں نعمت دی تھی وہ اقرار کرے گا اور عرض کرے گا۔ پروردگار بیشک یہ نعمتیں مجھ کو ملی تھیں اللہ تعالیٰ دریافت فرمائیں گے پھر تو نے اس میں ہمارے لیے کیا عمل کیا وہ عرض کرے گا کہ اے اللہ جتنی آپ کی راہ ہیں میں نے کوئی نہیں چھوڑی سب میں آپ کے لیے مال خرچ کیا حکم ہوگا تو جھوٹا ہے تو نے اس واسطے دیا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں سو لوگوں نے تجھے سخی کہا پھر حکم کریں گے کہ اس کو منہ کے بل آگ میں جھونک دو ۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے نیز حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتے وہ تمہارے دلوں کو اور اعمال کو دیکھتے ہیں اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے نیز حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں سب شرکاء سے زیادہ شرک سے بےنیاز ہوں جو شخص ایسا عمل کرے کہ اس میں میرے غیر کو شریک کرے میں اس کو اور اس کے عمل کو چھوڑ دیتا ہوں اور ایک روایت میں ہے کہ میں اس سے بری ہوں وہ عمل اسی کو سزا وار ہے جس کے لیے اس نے کیا ہے یاعلٰی حبہ میں ہٖ کی ضمیرمال کی طرف راجع ہے اس تقدیر پر یہ معنی ہیں کہ دیا مال کو تندرستی اور اس کی محبت کے وقت ابن مسعود ؓ نے یہی تفسیر فرمائی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ، اللہ کون سے صدقہ کا زیادہ ثواب دیتا ہے ؟ فرمایا کہ زیادہ ثواب اس وقت ہے کہ صدقہ کرنے کی حالت میں تندرست ‘ ہٹا کٹا اور حاجتمند ہو ‘ فقر سے ڈرتا ہو اور تونگری کی امید میں ہو اور ایسا نہ کرے کہ دینے میں ٹال مٹول کئے جائے جب روح حلق تک آجائے اور جان نکلنے لگے تو اس وقت دینے بیٹھے کہ فلاں کو اس قدر اور فلاں کو اس قدر اس وقت تو وہ مال وارثوں کا ہے ہی۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور آیت : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ( ہرگز نہ پہنچو گے تم نیکی کو جب تک اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو) سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ضمیر علیٰ حبہ میں مال کی طرف راجع ہونا مناسب ہے اور مال کی طرف ضمیر راجع ہونے کی تقدیر پر یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ ایسے مال کو دیا جو سب قسم کے مالوں سے زیادہ پیارا تھا۔ اس صورت میں یہ آیت : انفقوا مِن طیبات ما کسبتم و مِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ [ الایۃ ] یعنی خرچ کرو اپنی کمائی کی پاکیزہ اور عمدہ چیزیں اور ان چیزوں میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیں اور بری چیز کے دینے کا ارادہ مت کرو) کہ ہم معنی و ہم پلہ ہوجائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ضمیر مصدر ایتاء ( دینا) کی طرف راجع ہو مطلب یہ ہوگا دیا مال کو دینے کی محبت سے یعنی دل ان کا دین سے ناخوش اور ناراض نہیں ہوا بلکہ خوب جی کھول کردیا۔ ذَوِي الْقُرْبٰى ( رشتہ داروں کو) قربیٰ بمعنی قرابت مصدر ہے اور اہل حقوق پر رشتہ داروں کو اللہ تعالیٰ نے اسی لیے مقدم فرمایا ہے کہ اوروں سے ان کا دینا زیادہ بہتر اور موجب اجر ہے۔ ذوی القربیٰ میں سب طرح کے رشتہ دار شامل ہوگئے خواہ ان سے نسب کا تعلق ہو یا اور کوئی جیسے خاوند بیوی۔ غلام۔ ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر تو ایک دینار اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور ایک دینار مسکین کو دے اور ایک دینار اپنی اہل کو دے ان میں سب سے زیادہ ثواب اس دینار کا ہے جس کو تو نے اہل پر صرف کیا ہے اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے اور زینب زوجہ ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے عورتوں کے گروہ صدقہ اور خیرات کرو اگرچہ اپنے زیور سے ہی ہو۔ زینب ؓ اور ایک دوسری عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اپنے خاوند کو اور جو یتیم اپنی پرورش میں ہو اس کو اگر صدقہ دے تو کفایت کرے گا یا نہیں فرمایا کہ ایسے دینے میں دو ثواب ہیں ایک ثواب رشتہ داری کا اور ایک صدقہ کا۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے اور سلمان بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسکین کو صدقہ دینا تو صدقہ ہی ہے اور رشتہ دارکو صدقہ دینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔ اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی اور نسائی اور ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ وَالْيَـتٰىٰر ( اور یتیموں کو) یتیم اس بچہ کو کہتے ہیں جس کا باپ بالغ ہونے سے پہلے مرجائے یا گم ہوجائے۔ (صاحب انوار التنزیل ‘ 12) بیضاوی نے کہا ہے کہ ذوی القربیٰ اور یتامیٰ سے مراد حاجتمند رشتہ دار اور یتیم ہیں۔ چونکہ اس قید کا لحاظ بہت ظاہر تھا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس قید کو ذکر نہیں فرمایا۔ میں کہتا ہوں کہ اس قید کی کچھ حاجت نہیں کیونکہ منظور نظرا ور مقصود اصلی مال کے دینے کو ذکر کرنا ہے خواہ وہ دینا فرض ہو یا نفلی ہو اگر خاص فرض کو بیان کرنا منظور ہوتا تو البتہ ضرورت اس قید کی تھی اور زکوٰۃ فرض کا بیان خود آگے آتا ہے اور مال کا نفل کے طور پر دینا یہ ضروری نہیں کہ حاجتمندوں کو ہی ہو چناچہ صلہ رحمی اور یتیم کا جی خوش کرنا باوجود اس کے مالدار ہونے کے بھی ہوسکتی ہے بلکہ صلہ رحمی تو اسلام پر بھی موقوف نہیں کافر کے ساتھ بھی صلہ رحمی ہوسکتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وصاحبہما فی الدنیا معروفاً یعنی ان کا دنیا میں عمدہ طور پر ساتھ دے۔ حضرت اسماء ابوبکر ؓ کی دختر فرماتی ہیں کہ میری ماں میرے پاس آئی اور وہ مشرکہ تھی میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ میری ماں آئی ہے اور وہ مشرکہ ہے میں اس کے ساتھ کیا معاملہ کروں ؟ فرمایا کہ اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ عمرو بن العاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ فلاں قبیلہ والے میرے دوست نہیں ہیں میرا دوست تو اللہ تعالیٰ اور نیک مؤمن ہیں ہاں ان کی مجھ سے قرابت ہے اس کی رعایت البتہ میں کروں گا۔ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بدلہ دینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی رشتہ داری کو جوڑ دے۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اتنے قریب ہوں گے جیسے شہادت کی انگلی بیچ کی انگلی سے قریب ہے۔ اس کو امام بخاری و احمد و ابو داوٗد و ترمذی نے روایت کیا ہے۔ وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ( اور محتاجوں اور مسافروں کو) مجاہد فرماتے ہیں کہ ابن سبیل سے مراد مسافر ہے جو اپنے اہل و عیال سے الگ ہو اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ مراد مہمان ہے ابو شریح سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ اپنے مہمان کی مدارات کرے اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ ( اور مانگنے والوں کو) ام بجید ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ سائل کو ضرور کچھ دو اگرچہ بکری کا جلا ہوا کھر ہی سہی اور ایک روایت میں ہے کہ اے ام بجید اگر تجھ کو بکری کے جلے ہوئے کھر کے سوا کچھ اور میسر نہ ہو تو وہی دے دے۔ اس حدیث کو احمد اور ابو داوٗد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسین بن علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مانگنے والے کا حق ہے اگرچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ ابو داوٗد نے علی ؓ سے اور ابن راہویہ نے فاطمہ زہرا سے اور طبرانی نے ہرماس بن زیاد ؓ سے روایت کیا ہے اور امام احمد نے کتاب الزہد میں سالم بن ابی الجعد سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ سائل کا حق ہے اگرچہ وہ تمہارے پاس ایسے گھوڑے پر سوار ہو کر ائے جس کا حلقہ چاندی کا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائل کو اگرچہ بوجہ اسکے مالدار ہونے کے سوال حرام ہے لیکن اسکو دینا ضروری ہے۔ وَفِي الرِّقَابِ ( اور گردنوں کے چھڑانے میں) رقاب سے مراد یا تو مکاتب ہیں اس تقدیر پر تو یہ آیت : و اٰتُوھُمْ مِن مال اللہ الّذی اٰتاکم ( دو مکاتبوں کو اللہ کے دیئے ہوئے مال سے) کے ہم پلہ ہوگی اور یا غلام آزاد کرانا مراد ہے۔ اس صورت میں یہ آیت فک رقبۃ ( چھڑانا گردن کا) کے ہم پایہ بنے گی۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت سے قیدیوں کا فدیہ دینا مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : و یطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیماً واسیراً ( یعنی اور کھلاتے ہیں کھانا باوجود اس کی خواہش کے مسکین اور یتیم اور قیدی کو) وَاَقَام الصَّلٰوةَ ( اور درست کرتے رہے نماز) مطلب یہ ہے کہ نماز فرض اور نفل کو خوب آداب اور مستحبات اور سنن کے ساتھ پڑھتے رہے۔ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ( اور دیتے رہے زکوٰۃ) یہاں زکوٰۃ سے زکوٰۃ فرض مراد ہے اور اتی المال سے مراد یا تو صدقات نافلہ ہیں یا مطلق مال دینا مراد ہے خواہ نفل ہو یا فرض۔ اخیر صورت میں زکوٰۃ کو بعد میں مکرر فرمانا زیادتی اہتمام کے لیے ہوگا اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ دونوں جگہ زکوٰۃ مفروضہ مراد ہے لیکن اوّل جگہ مصارف کو بیان کرنا منظور ہے اور دوسری جگہ زکوٰۃ کا ادا کرنا اور اس پر ترغیب دینا مقصود ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اوّل توجیہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کر بِرّ ( نیکی) کو بیان کرنا مقصود ہے اور برّ اس فعل کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہو خواہ وہ فرض ہو یا نفل۔ چناچہ اس تفسیر کی یہ حدیث تائید کرتی ہے۔ فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مال میں سوائے زکوٰۃ کے اور بھی حق ہیں پھر آپ ﷺ نے : لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوھَکُمْ ۔۔ تلاوت فرمائی۔ اس حدیث کو ترمذی (رح) اور ابن ماجہ (رح) اور دارمی (رح) نے روایت کیا ہے۔ حق سے مراد عام ہے خواہ واجب ہو یا مستحب۔ چناچہ طلحہ بن عبید اللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں ایک شخص حاضر ہوا اور اسلام کی حقیقت دریافت کی۔ فرمایا کہ پنجگانہ نماز اور رمضان کے روزے اور زکوٰۃ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھ پر اور بھی کچھ ہے فرمایا نہیں لیکن اگر تیرا جی چاہے تو نفل کے طور پر کچھ کرلے۔ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ( اور پورا کرتے رہے اپنا اقرار جب کوئی عہد کرتے ہیں) مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے معاہدہ کرتے ہیں تو اس کو پورا کرتے ہیں مثلاً روز ازل میں جو عہد ہوا اس کو پورا کرتے ہیں اور دنیا میں جب قسم کھاتے ہیں اس کو سچا کردکھاتے ہیں اور جب منت مانتے ہیں اس کو پورا کرتے ہیں ایسے ہی جب مخلوق سے عہد کرتے ہیں تو اس کو پورا کرتے ہیں مثلاً جب وعدہ کرتے ہیں تو اس کو وفا کرتے ہیں اور جب کچھ کہتے ہیں تو سچ کہتے ہیں ‘ ان کے پاس کوئی امانت رکھتا ہے تو اس کو جوں کی توں ادا کرتے ہیں اور جب حق بات پر ان سے گواہی طلب کی جاتی ہے تو گواہی دیتے ہیں۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کہے تو جھوٹ کہے اور جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب امانت اس کے پاس رکھی جائے تو خیانت کرے اور حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اگرچہ و نماز روزہ کا پابند اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ اور عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ چار خصلتیں جس میں پائی جائیں وہ منافق خالص ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہے اس میں اس خصلت کے چھوڑنے تک ایک خصلت نفاق کی رہے گی جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ جب بات کہے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو اس کو پورا نہ کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے والموفون ..... کا من اٰمنَ پر عطف ہے۔ وَالصّٰبِرِيْنَ ( اور صبر کرتے رہے) وَالصَّابِرِیْنَ بھی مَنْ اٰمَنَ پر معطوف ہے اور درمیان میں ایک کلام طویل فاصل ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور عرب کی عادت ہے کہ جب کلام طویل ہوجاتا ہے تو اعراب کو متغیر کرتے ہیں اور ابو عبیدہ نے اسی طرح کہا ہے اور ایسے ہی سورة مائدہ میں والصَّاءِبِیْنَاور سورة نساء میں والمقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ کلامطویل ہونے کے سبب سے مرفوع منصوب ہے اور خلیل نے کہا ہے : وَالصَّابِرِیْنَ منصوب علی المدح ہے اور عطف نہ کرنے کی یہ وجہ ہے کہ صبر اور اعمال سے زیادہ افضل ہے کیونکہ اعمال میں افضل وہ ہے جس پر مداومت ہو اور صبر میں مداومت سب سے زیادہ ہے اس صورت میں تقدیرعبارت کی اس طرح ہوگی : اَخَصُّ الصَّابِرِیْنَ بمزید البِرِّ اَوْ اَمْدَحُ الصَّابِرِیْنَ بِمَزِیْدِ الْبِرِّ یعنی خاص کرتا ہوں میں صابروں کو یا مدح کرتا ہوں میں صابروں کی زیادتی نیکی کے ساتھ اور اس وقت جملہ کا جملہ پر عطف ہوگا اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ : وَالصَّابرِیْنَ کا ذَوِی الْقُرْبٰی پر عطف ہے اس صورت میں تقدیر عبارت کی یوں ہوگی۔ وَ اٰتَی الْمَال الصَّابِرِیْنَ یعنی اور دیامال صابروں کو اور یہ آیت اس توجیہ پر معنی کے اعتبار سے آیت : لِلْفُقَرَاءَ الَّذِْیْنَ اُحْصِرُوْا فِی سَبِیلِ اللہ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُھُمْ الْجَاھِلُ اَغْنِیَاءَ مِنَ التَّعفُّفِ (ترجمہ) دیا کرو مفلسوں کو جو گھرے ہوئے ہیں خدا کی راہ میں نہیں چل پھر سکتے ملک میں سمجھتا ہے ان کو انجان آدمی مالدار ان کی بےسوالی کی وجہ سے) کے قریب قریب ہوجائے گی۔ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ( تنگی اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت) بَاسَاء شدت اور فقر کو کہتے ہیں۔ ضَرَّاءٍ مرض اور اپاہج پن کو بولتے ہیں بَاْسِ کے معنی قتال اور حرب کے ہیں۔ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ( یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں) مطلب یہ ہے کہ یہی لوگ ایمان اور نیکی میں سچے ہیں اور یہی کفر اور تمام بری خصلتوں سے بچتے ہیں۔
Top