Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 2
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ١ۛۖۚ فِیْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ
ذٰلِكَ : وہ / یہ الْكِتٰبُ : کتاب ہے لَا : نہیں رَيْبَ : کوئی شک فِيْهِ : اس میں ھُدًى : ہدایت ہے لِّلْمُتَّقِيْنَ : واسطے ان کے جو متقی ہیں
یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ خدا ہے۔ خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے
ذٰلِکَ الْکِتٰبُ یعنی وہ کتاب ہے جسے محمد ﷺ پڑھتے اور مشرکین اس کی تکذیب کے درپے ہوتے ہیں۔ ذٰلک سے قرآن مجید کے اس حصہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو سورة بقر سے پیشتر نازل ہوچکا ہے اور ممکن ہے کہ سارے قرآن مجید کی طرف اشارہ ہو جس کا کچھ حصہ اس سے پہلے نازل ہوچکا تھا بہر صورت ذٰلک مبتدا ہے اور الکتٰب خبر یعنی یہ وہ کتاب ہے جس کا وعدہ پیغمبر صاحب کو دیا گیا۔ یا یوں کہو کہ یہی وہ کامل مکمل کتاب ہے جو کتاب کے ساتھ نامزد ہونے کے قابل ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الکتاب صفت ہو اور ما بعد خبر بعضے مفسروں کا بیان ہے کہ یہاں ھذا کا لفظ مضمر ہے اور تقدیر عبارت یوں ہے کہ اے محمد ! یہ جو کچھ تم پر وحی کیا جاتا ہے اور یہ وہ کتاب ہے جس کے اتارنے کا وعدہ ہم نے توریت اور انجیل میں کیا ہے۔ یا یہ وہ کتاب ہے جس کا ہم نے اس سے پیشتر اپنے قول اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا میں تم سے وعدہ کیا تھا اس صورت میں لفظ ذٰلک مبتدا محذوف کی خبر ہوگا اور الکتٰباس کی صفت کتاب ہے تو مصدر لیکن معنی میں ہے مکتوب 2 ؂ کے اور اس کے اصلی معنی ملانے اور جمع کرنے کے ہیں۔ لشکر کو اسی واسطے کنیبہ کہا جاتا ہے کہ اس میں آدمی جمع ہوتے ہیں۔ کتاب کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اس میں ایک حرف دوسرے حرف سے ملتا اور جمع ہوتا ہے ‘ یا اس لیے کہ وہ لکھی جاتی ہے۔ پھر ذٰلک کا لفظ جو بعید مشار الیہ کے لیے مستمل ہوتا ہے یہاں اس سے کتاب کی تعظیم شان کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ لَا رَیْبَ فِیْہِ یعنی اس کتاب کے دلائل ایسے واضح اور براہین اس درجہ روشن ہیں کہ نظر صحیح کے بعد منصف آدمی اس کے وحی اور من جانب اللہ ہونے میں ذرا شک نہیں کرسکتا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں خبر انشاء کے معنی میں ہے یعنی لوگو ! اس کتاب کے منزل من اللہ ہونے میں شک و شبہ نہ کرو۔ لا ریب میں لا نفی جنس کے لیے ہے ریب اسم ہے اور فیہ خبر یا یوں کہو کہ فیہ صفت اور للمتقین خبر اور ھدی بہ لحاظ حال منصوب یا لا کی خبر تو محذوف مانو جیسے لا ضیر میں اور فیہ کو ھدی کی خبر کہہ دو جو ھدی کے نکرہ ہونے کی وجہ سے اس پر مقدم ہوگئی ہے۔ تقدیر عبارت یوں سمجھو لا رَیْبَ فِیْہ فیہ ھدی (یہ سب توجیہیں گو بجائے خود درست اور بجا ہیں) لیکن بہتر اور سب سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ یہ سب مسلسل مگر علیحدہ علیحدہ جملے قرار دیئے جائیں اور ہر جملہ لاحقہ کو سابقہ کی تاکید مانا جائے یہی وجہ ہے کہ دو جملوں کے بیچ میں حرف عطف نہیں لا یا گیا پس ذٰلک الکتٰب ایک ایسا جملہ ہے جو اس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ یہ کتاب ایسے اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے جو غایت کمال کے ساتھ موصوف ہے اور اس حیثیت سے اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں ہوسکتا اسی پر قیاس کرلو ھدی للمتقین کو ابن کثیر نے فیہ کی ہ کو حالت وصل کی حالت میں اشباع سے پڑھا ہے اور نہ صرف فیہ کی ہ کو بلکہ جس خمیری غائب کا پہلا حرف ساکن ہو اسے وصل کی حالت میں اشباع سے یعنی کسرہ کو ی کی آواز میں پڑھا ہے بشرطیکہ حرف ساکن ی ہو ورنہ و کی آواز میں جیسے منہ اسی طرح تمام قراء ہرہ کو اشباع سے پڑھتے ہیں اگر اس سے پہلے کا حرف متحرک ہو۔ پھر اگر وہ متحرک حرف مکسور ہے تو اشباع ی کے ساتھ ہوتا ہے ورنہ و سے جیسے یضربہ اور لہ میں لیکن شرط یہ ہے کہ آخر میں حرف ساکن لاحق نہ ہو کیونکر آخر میں ساکن لاحق ہوگا تو اجتماع ساکنین کی وجہ سے باتفاق تمام قراء اشباع ساقط ہوجائے گا۔ جیسے علیہ الکتب اور لہ الحکم۔ مگر جب کلمہ ناقص ہو یعنی جزم کی وجہ سے آخر کا اصلی حرف حذف ہوگیا ہو مثلاً یُؤدِّہٖ ۔ نُوَلِّہٖ ۔ نُصْلِہٖ فَاَلْقِہٖ ۔ یَتَّقِہٖ ۔ یَاتِہٖ ۔ یَرْضَہٗ اور جب ہ کا پہلا حرف متحرک بھی ہو تو اس میں قراء کا اختلاف ہے جس کی تفصیلی بحث تو ہم آگے چل کر انشاء اللہ اس کے موقع پر کریں گے مگر مجمل یہ ہے کہ بعض قاری ماقبل کے حرف کے تحرک پر نظر کرکے اشباع سے پڑھتے ہیں اور بعض قاری بایں خیال سکون سے پڑھتے ہیں کہ ما قبل کے حرف کی حرکت محذوف حرف کے قائم مقام ہے اور بعض اس لحاظ سے کہ ہ کے پہلے حرف کی حرکت عارضی ہے اور محذوف حرف پر تنبیہ کر رہی ہے اختلاس سے پڑھتے ہیں۔ ھُدً ی لِّلْمُتَّقِیْنَ ( یہ کتاب پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے) یہ تیسرا جملہ ہے جو کتاب یعنی قرآن کے برحق ہونے اور اس میں کسی طرح کے شک و شبہ کو دخل نہ پانے کی تاکید کر رہا ہے یا ان میں کا ہر ایک جملہ یعنی سابق کے پیچھے لاحق اس طرح لگا چلا آتا ہے جس طرح دلیل کے پیچھے مدلل یا علت کے پیچھے معلول ہوا کرتا ہے گویا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ کتاب حد کمال کو پہنچ گئی ہے لہٰذا اس کے من جانب اللہ ہونے میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا ( اور جب یہ ہے) تو ( پرہیزگاروں کے لیے سر تا پا) ہدایت ہے۔ ہدایت کا استعمال دو معنی میں ہوا کرتا ہے ایک صرف مقصد کا رستہ بتادینے میں دوسرے نہ صرف رستہ بتادینے میں بلکہ مقصد تک پہنچا دینے میں۔ ھُدٰی ہے تو مصدر لیکن معنی میں ہے ہادی کے یا مصدر کا ذکر مبالغۃً ہوا ہے جیسے زیدٌ عدلٌ میں پھر ہدایت کی تخصیص پرہیزگاروں کے ساتھ بہ لحاظ معنی اوّل تو اس لیے ہے کہ قرآنی ہدایت سے خاص کر یہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں یعنی ہرچند کہ قرآنی ہدایت عام طور پر ہر مسلمان اور کافر کو شامل ہے جیسا کہ قرآن کے دوسرے موقع پر ارشاد ہوا ہے۔ ھُدًی للنَّاس لیکن اس سے متمتع ہونا اور فائدہ حاصل کرنا صرف پرہیزگاروں کا حصہ ہے اور معنی ثانی کے اعتبار سے تخصیص کی وجہ ظاہر ہے کیونکہ مقصود کی طرف رہنمائی ان ہی لوگوں کو مفید پڑتی ہے جن کی عقل کا آئینہ صاف اور کدورت زنگ سے مجلّٰی اور روشنی ہوتا ہے اس کی مثال بعینہٖ ایسی ہے جیسے غذائے صالح کہ بدن صحیح کو مفید پڑتی ہے نہ مریض و فاسد کو اس لیے خدا تعالیٰ نے قرآن کے ایک موقع پر یوں ارشاد فرمایا ہے : وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمنِیْنَ وَ لَا یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ اِلًّا خَسَارًا ط متقی اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے تئیں ایسی چیز سے محفوظ رکھے جو اسے آخرت میں ضرر رساں اور تکلیف دہ ثابت ہو پھر اگر وہ ( مضرت وہ چیز) شرک ہے اور اس سے آدمی بچتا ہے تو یہ تقویٰ کا ادنیٰ مرتبہ ہے گناہ اور معصیت سے بچنا تقویٰ کا وسطی مرتبہ ہے مگر اعلیٰ درجہ کا متقی وہ ہے جو لایعنی چیزوں سے منہ موڑ کر ذکر الٰہی میں مستغرق ہو اسی تقویٰ کی طرف اشارہ ہے اس آیت میں : یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَ لَا تُمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوَْنَ ۔ حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں اصل میں تقویٰ اس کا نام ہے کہ تو اپنے نفس کو کسی سے بہتر و برتر نہ دیکھے شہر بن حوشب کہتے ہیں متقی وہ ہے جو حرام اور ناجائز باتوں میں پڑجانے کے خوف سے ان چیزوں کو ترک کر بیٹھے جن میں کوئی شرعی خطرہ نہ ہو صحیحین میں بروایت ابن عدی بحوالہ حضرت نعمان بن بشیر آیا ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی اور ان دونوں کے درمیان میں بہت سے مشتبہ امور ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جان سکتے تو جو شخص مشتبہ امور سے بچ گیا اس نے اپنی آبرو اور دین کو بےلوث اور پاک کرلیا اور جو مشتبہ امور میں پڑگیا وہ حرام میں جا پڑا مثلاً اگر کوئی چرواہا کسی محفوظ ممنوع چراگاہ کے گردا گرد جانور چرارہا ہو تو قریب ہے کہ وہ چراگاہ میں جا پڑے سنو ! اور غور سے سنو کہ ہر بادشاہ کا ایک ممنوع باڑہ ہوتا ہے اور زمین پر خدا کا ممنوعہ علاقہ اس کے محارم ہیں سنو ! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست اور اصلاح یافتہ ہوتا ہے تو سارا بدن درست اور صحیح رہتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے سنو ! وہ گوشت کا لوتھڑا دل ہے۔ طبرانی صغیر میں روایت کرتے ہیں کہ حلال و حرام دونوں ظاہر ہیں تو جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے ترک کر کے غیر مشکوک کی طرف رخ کر۔ میں (مفسر ‘ 12) کہتا ہوں حدیث میں جو دل کی صلاحیت اور درستی کا ذکر ہوا ہے اس سے اصلاح صوفیہ (رح) کے مطابق فنائے قلب مراد ہے یعنی دل کی صلاحیت یہی ہے کہ اسے فنا فی اللہ کردیا جائے اور یہ مراتب ولایت میں سے پہلا مرتبہ اور درستی جسم کو مستلزم ہے نیز ارتکاب محرمات کے خوف کے سبب مشتبہ امور سے تحفظ اسی کی بدولت حاصل ہوتا ہے الغرض تقویٰ ولایت کو لازم ہے (اور ہر متقی بشرطیکہ وہ کامل اور پورامتقی ہو ولایت کے ممتاز مرتبہ تک پہنچتا اور ضرور پہنچتا ہے) ان ہی متقیوں کی بابت خدا نے فرمایا ہے : اِنْ اَوْلِیَآؤُہٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ یعنی خدا کے ولی تو صرف پرہیزگار لوگ ہیں لیکن اس آیت میں مجازاً اس شخص کو متقی کہا گیا ہے جو تقویٰ کے دروازے کو کھٹ کھٹا رہا ہے ( اور گو ابھی تقویٰ کے لباس سے آراستہ نہیں ہوا مگر آخر کار اس کے درجے تک ضرور پہنچ جانے والا ہے) اس صورت میں ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے بالکل ویسے ہی معنی ہونگے جو من قتل قتیلاً فلہ سلببہ کے ہیں (یعنی جس طرح اس حدیث میں اس شخص کو مقتول کہا گیا ہے جو بالفعل نہیں مگر آئندہ مقتول ہوگا اسی طرح آیت میں اس شخص کو متقی کہا گیا ہے جو آئندہ تقویٰ کے مرتبہ کو پہنچے گا) ۔
Top