بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الم
الۗمّۗ۔ قرآن مجید کی بعض سورتوں کی ابتداء میں جو حروف مقطعات ( جستہ جستہ) آتے ہیں ان کی تحقیق میں علماء مفسرین کی مختلف آراء اور متعدد اقوال ہیں۔ بعضے کہتے ہیں ان سورتوں کے نام ہیں جن کی ابتداء میں یہ واقع ہوئے ہیں اور بعض کہتے ہیں ان سے ایک کلام کے منقطع ہونے اور دوسرے کلام کے شروع ہونے پر مزید تنبیہ مقصود ہوا کرتی ہے۔ (یعنی حروف مقطعہ سے واضع کی اصلی غرض یہ ہے کہ وہ ایک کلام کے انقطاع اور دوسرے کلام کے از سر نو شروع ہونے پر دلالت کریں) کچھ لوگوں کا بیان ہے کہ حروف مقطعہ سے ان کلمات کی طرف اشارہ ہے جن کے شروع میں یہ حروف واقع ہیں جیسا کہ عرب کے ایک نامور اور مشہور شاعر کا قول ہے فَقُلْتُ لَھَا قِفِیْ فَقَالَتْ لِیْ قَافْ یعنی وقفت) ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم ابو العالیہ سے روایت کرتے ہیں کہ ا آآ میں الف سے آلاء اللہ لام سے لطف خدا اور میم سے اس کا ملک بےزوال (بادشاہی) مراد ہے۔ عبد بن حمید اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم ابو العالیہ سے یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ ا آرَّ اور حٰٓمٓ اور نٓ کا مجموعہ الرحمن ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ا آآ کے معنی ہیں اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ (یعنی انا کا الف اللہ کالام اور اعلم کی میم ہے) علامہ بغوی نے بروایت سعید بن جبیر حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ آآمآ کے معنی ہیں اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ وَ اَفْضَلُ ( یعنی میں خدا ہوں سب چیزوں سے واقف اور ہر بات میں بہتر فیصلہ دینے والا) اسی طرح ا ل ر کے معنی ہیں انا اللہ اَرٰی (یعنی میں خدا ہوں ہر چیز کو دیکھتا ہوں) اور الآآ سے انا اللہ اَعْلمُ وَاَ رٰی مراد ہے ( یعنی میں خدا ہوں جانتا ہوں اور دیکھتا ہوں) بعض علماء کا خیال ہے کہ حروف مقطعہ سے قوموں کی زندگی کی مدتیں اور اس امت کے بڑے انقلابات مراد ہیں بحساب (1)[ اہل فارس نے کسی کے سنہ ولادت و وفات یا کسی بادشاہ کی تاج پوشی یا کسی غیر معمولی واقعہ کی مدت وقوع یاد رکھنے کے لیے حروف ابجد کا عددی حساب مقرر کر رکھا تھا۔ عدد ابجد کا واضع عرب نہیں۔ نہ عرب میں اس کا استعمال کبھی ہوا۔ اس لیے اس حساب کا ملحق بالعربیۃ یامعرب بھی نہیں قرار دیا جاسکتا لیکن یہودی علماء حساب ابجد سے واقف تھے اس لیے حساب لگا کر انہوں نے سوال کیا تھا۔] ابجد چناچہ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابن جریر نے بسند ضعیف بیان کیا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ یہودی آئے اور آپ نے ان کے روبرو سورة بقرہ پڑھی تو انہوں نے حساب لگا کر اور جی ہی جی میں کچھ شمار کرکے کہا کہ ہم ایسے دین میں کیونکر داخل ہوسکتے ہیں جس کے رواج کی مدت زیادہ سے زیادہ اکہتر برس ہیں کیونکہ ا آآ کے کل اعداد بحساب ابجد اکہتر (71) ہوتے ہیں نبی کریم ﷺ نے سنا تو مسکرا کر خاموش ہوگئے اس پر یہودیوں نے حضور ﷺ کی طرف متوجہ ہو کر کہا کیا اس کے علاوہ کچھ اور بھی آپ ﷺ پر نازل ہوا ہے ؟ فرمایا : ہاں الآآ اور الآ اور ا آآرٰ یہ سن کر یہود بولے کہ ابو القاسم ! تم نے ہم کو اشتباہ میں ڈال دیا ( کیونکہ الآآ کے عدد 161 اور الر کے عدد 231 اور المر کے عدد 271 ہیں) اب ہم حیران اور سخت حیران ہیں کہ کس کو لیں اور کس کو چھوڑیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ تمام اقوال جو حروف مقطعات کی تحقیق میں بعض مفسرین نے نقل کئے ہیں ( اور جن کا میں نے قدرے بسط کے ساتھ ذکر کیا ہے) سب کے سب علماء محققین کے نزدیک مردود اور نامقبول ہیں قول اوّل اس لیے غلط ہے کہ حروف مقطعات کو سورتوں کے نام تسلیم کرلینے کی تقدیر پر لازم آتا ہے کہ ایک ہی واضع کی طرف سے اعلام میں اشتراک واقع ہو اور یہ ( نہ صرف بلغاء کے نزدیک ناپسند اور مکروہ ہے بلکہ) مقصود بالعلمیۃ کے صریح منافی ہے۔ علاوہ بریں ایک چیز کا تین یا تین سے زیادہ کلمات سے مرکب کرکے نام رکھنے کو اہل دانش کا ذوق سلیم انکار کرتا ہے اور نیز بعض سورتوں کا ان ناموں کے ساتھ موسوم ہونا اور بعض کا نہ ہونا یہ بھی شان متکلم سے بعید ہے۔ دوسرا قول اس لیے غلط ہے کہ حروف مقطعات نہ صرف وضعاً بلکہ عرفًا بھی اس لیے مقرر نہیں کئے گئے ہیں کہ ان سے ایک کلام کے منقطع ہونے اور دوسرے کلام کے ازسر نو شروع ہونے پر مزید تنبیہ مقصود ہو وجہ یہ کہ اگر ایسا ہوتا تو ہر سورت کی ابتداء میں حروف مقطعات کا ہونا ضرور اور لازمی تھا۔ تیسرے قول کی غلطی کی یہ وجہ ہے کہ حروف مقطعات سے کلمہ کے بعض حرف پر اقتصار کرنے کی طرف اشارہ ہونا یہ کلام عرب میں غیر مستعمل ہے اور اس پر شعر سے سند لانا محض شاذ اور نامقبول ہے۔ علاوہ ازیں شعر میں کلمہ قفی اس بات پر قرینہ صریح ہے کہ شاعر کی مخاطبہ کا قول قاف وَ قفْتُ سے ماخوذ ہے بخلاف حروف مقطعات کے کہ وہاں اس قسم کا کوئی قرینہ پایا نہیں جاتا۔ مثلاً الٓم میں کوئی قرینہ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ الف کلمہ آلاء اللہ سے اور لام لطف اللہ سے اور میم ملک اللہ سے ماخوذ ہے (اور جب یہ ہے تو الف سے خداوندی نعمتیں اور لام سے اس کا لطف اور میم سے ملک بےزوال مراد لینا کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا) اب رہی یہ بات کہ بعض صحابیوں اور تابعیوں سے جو اس قسم کے آثار و اقوال منقول ہیں ان کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ وہ اقوال مصروف عن الظاہر ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوگا تو ان کے اقوال میں تعارض ماننا پڑے گا ( اور قطع نظر اس کے ترجیح بلا مرجح لازم آئے گا جو شیوۂ متکلم اور شان فصیح کے سراسر خلاف ہے) کیونکہ جب چند کلمے کئی حرفوں کو شامل ہوں تو ان میں سے صرف ایک کلمہ کے ساتھ حرف کی تخصیص اور دیگر حرفوں سے اعراض کرنا بھی ترجیح بلا مرجح ہے۔ رہا جناب نبی کریم ﷺ کا فہم یہودی پر مسکرانا تو ظاہر یہ ہے کہ آپ کا یہ تبسم (تبسم رضا نہ تھا بلکہ) اس کی جہل و نادانی اور کم فہمی پر تعجب اور تعجب کے ساتھ تبسم تھا اور بعض مفسروں نے جو یہ کہا ہے کہ حروف مقطعہ قسمیہ حروف ہیں یعنی یہ حروف چونکہ خاص قسم کی شرافت و بزرگی رکھتے ہیں کیونکہ یہ مادہ اسماء الٰہی اور اصول لغات ہیں اس لیے خدا نے ان کی قسم کھائی ہے تو یہ تاویل چند ایسی چیزوں کی محتاج ہے جن پر اب تک کوئی یقینی دلیل اور قطعی برہان قائم نہیں کی گئی ( الغرض علماء محققین نے مفسروں کی ان توجیہات کی جو حروف مقطعات کے بارے میں یہاں مذکور ہوئیں بوجوہ بالا تردید کی ہے اور کسی توجیہ کو قابل تسلیم نہیں بتایا ہے یہی وجہ ہے کہ قاضی بیضاوی نے جو مفسرین کے طبقہ میں بڑی پائگاہ رکھتے ہیں) ان تمام توجیہات سے پہلو بچا کر ایک عجیب ( اور نہایت معرکہ آراء) توجیح اختیار کی ہے (چنانچہ فرماتے ہیں کہ) چونکہ حروف تہجی عنصر کلام اور مادۂ لغات ہیں اور کلام ان ہی سے ترکیب پاتا ہے اس لیے ان میں سے بعض حروف کے ساتھ قرآن مجید کی سورتوں کی ابتداء کی گئی ہے اس سے ان لوگوں کو تنبیہ کرنی مقصود ہے جو قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے کا انکار کرتے اور اسے غیر خدا کا کلام بتاتے تھے کہ جو کلام تمہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے ان ہی حرفوں سے مرکب ہے جن سے تم اپنے کلام کو ترکیب دیتے ہو پھر اگر یہ خدا کا کلام نہیں ہے تو اس جیسے کلام بنا لا نے سے تم کیوں عاجز ہوتے ہو۔ اور نیز حروف تہجی اس لیے بھی سورتوں کی ابتداء میں لائے گئے ہیں کہ سب سے پیشتر جو سامعین کے کانوں میں پہنچے وہ اعجاز کی ایک نوع مستقل ہو کیونکہ (حرفوں کے نام بغیر لکھنے پڑھنے کی مشق کے پہچاننے نہ صرف دشوار بلکہ ناممکن ہیں اور جب یہ ہے تو) امی محض کا اسماء حروف کو ذکر کرنا صریح معجزہ ہے ( علاوہ ازیں) ان حرفوں کے لانے میں ان نکات و دقائق کی رعایت کی گئی ہے جن سے بڑے سے بڑا ادیب جو فن ادب میں فائق و مشہور ہو محض عاجز و قاصر رہتا ہے اور ماہر عربیت ان کی نگہداشت نہیں کرسکتا۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ قرآن مجید کی انتیس سورتوں میں ( جو گنتی کے لحاظ سے حروف تہجی کے برابر ہیں) چودہ حروف لائے گئے ہیں ( جو حروف تہجی سے نصف ہیں) اور ایسے انداز سے لائے گئے ہیں کہ حروف کی تمام قسموں یعنی مہموسہ ‘ مجہورہ شدیدہ اور رخوہ وغیرہ سب کو احاطہ کئے ہوئے ہیں کیونکہ ہر قسم کے نصف نصف حروف ان میں موجود ہیں جیسا کہ اس کی تفصیل سابق میں گزر چکی ہے۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ قرآن مجید کی سورتوں کی ابتداء میں وہی چودہ حروف لائے گئے ہیں جن سے اکثر اوقات کلام مرکب ہوا کرتا ہے ان کے علاوہ باقی چودہ حروف جو مقطعات کی فہرست سے خارج ہیں وہ ترکیب کلام کا کام نہیں دیتے۔ گویا ا آآ اور ا ل ر وغیرہ کے معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن جس کے مقابلہ کی دعوت دی جارہی ہے ان ہی حروف کی جنس سے مرکب ہے جن سے تمہارے کلام ترکیب پاتے ہیں (تو اگر یہ کلام خدا نہیں بلکہ کلام بشر ہے) تو تم اے منکرین قرآن اس جیسا کلام بنا لانے سے کیوں عاجز ہوتے ہو۔ قرآنی مقطعات میں میرے نزدیک ( قطعی فیصلہ اور) حق بات یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کے متشابہات اور ان مخفی رموز و اسرار میں سے ہیں جو صرف حق تعالیٰ اور اس کے نبی کریم ﷺ کے مابین دائر ہیں 1 ؂ اور جنہیں عام لوگ سمجھنے کی لیاقت نہیں رکھتے بلکہ خود خدا کو منظور نہیں کہ عام لوگ ان سے مطلع ہوں۔ خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کریم ﷺ کو اور آپ کے کامل پیرو وں اور معتقدوں میں سے جسے چاہا اس کو سمجھا دیا۔ امام بغوی کہتے ہیں جناب صدیق اکبر ؓ نے فرمایا کہ ہر کتاب میں ایک مخفی بھید اور پوشیدہ راز ہوا کرتا ہے۔ قرآن مجید میں خدا کا بھید اوائل سور یعنی حروف مقطعات ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ہر کتاب کا ایک انتخاب اور خلاصہ ہوا کرتا ہے قرآن مجید کا خلاصہ حروف تہجی ہیں۔ اس روایت کو امام ثعلبی نے حضرت صدیق اکبر اور حضرت علی وغیرہ ؓ سے روایت کیا ہے اور سمرقندی نے حضرت فاروق اعظم اور حضرت عثمان بن عفان اور حضرت ابن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے۔ قرطبی نے سفیان ثوری سے اور ربیع بن خثعم اور ابوبکر بن الانباری اور ابن ابی حاتم اور محدثین کی ایک کثیر جماعت نے (مختلف رواۃ سے) نقل کیا ہے۔ حضرت سجاوندی کا قول ہے کہ حروف مقطعات کے بارے میں صدر اوّل کے تمام لوگوں کے متفقہ الفاظ یہ ہیں : اِنَّھا سِرٌّ بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَ نَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ 3 ؂ اور کبھی ایسے دو شخصوں کے درمیان جو باہم ایک دوسرے کے راز دار اور مزاج شناس ہوتے ہیں وہ راز کی باتیں اور معمے جاری ہوتے ہیں جو ان کے باہمی اسرار کی طرف مشیر ہوتے ہیں اور یہ جو کہا گیا ہے کہ ” مقطعات اور متشابہات کا علم صرف خدا ہی کے ساتھ مخصوص ہے نہ تو جناب نبی کریم ﷺ ہی ان پر مطلع ہوئے اور نہ آپ کے اتباع اور پیروؤں ہی میں سے کوئی شخص مطلع ہوا۔ “ نہایت بعید اور دور از قیاس ہے کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن کریم معلوم المعنی نہ ہو نیز متکلم کی جانب سے جب خطاب ہوتا ہے تو اس سے سامع کی تفہیم مقصود ہوا کرتی ہے تو اگر حروف مقطعات سے سننے والوں کو کوئی فائدہ مترتب نہ ہوگا اور شارع کو ان سے کسی طرح کی تفہیم و افہام مد نظر نہ ہوگی تو حروف مقطعات سے لوگوں کو خطاب کرنا گویا مہمل اور بےمعنی کلمات سے خطاب کرنا ہوگا یا ہندی شخص سے عربی زبان میں کلام کرنا اور اس صورت میں قرآن مجید بتمامہ بیان و ہدایت نہ رہے گا اور نیز خدا کا اپنے اس قول : ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ میں معاذ اللہ وعدہ خلاف ہونا لازم آئے گا کیونکہ یہ آیت بطریق اقتضا صاف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن مجید متشابہ ہو یا محکم۔ اس کا بیان و تفسیر نبی ﷺ کے لیے خدا کی طرف سے واجب و ضروری ہے۔ خلاصہ یہ کہ حروف مقطعات اور متشابہات کا علم جناب نبی کریم ﷺ کو ضرور تھا اور نہ صرف نبی ﷺ کو بلکہ آپ کے اتباع کا ملین کو بھی تھا۔ چناچہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ میں راسخین فی العلم میں سے ہوں اور جو لوگ متشابہات اور مقطعات کی تفسیر کے عالم ہیں ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔ یہی قول ( بہ تبدیل الفاظ) حضرت مجاہد کا بھی ہے اس امت مرحومہ میں سے کہ جس کا حال معلوم نہیں کہ اس کا اوّل بہتر ہے یا اخیر اور شاید اس کا اخیر کثرت کے اعتبار سے بڑا عریض اور بڑا عمیق ہے اور نہایت اچھا ہے۔ مجدد الف ثانی نے جو اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی مقطعات اور اس کے اسرار کی تاویل ظاہر کی ہے لیکن ان کا بیان و تفسیر عام لوگوں کے لیے ناممکن ہے تو اس سے بھی حروف مقطعات کا اسرار الٰہی میں سے ایک سر ہونا اور ان کے علم کے ساتھ صرف خدا ہی کا مخصوص ہونا باطل اور غلط ٹھہرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حرف مقطعات اسمائے الٰہی ہیں جیسا کہ ابن جریر ‘ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابن مردویہ نے کتاب الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح بتایا ہے۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنی دعاء میں فرمایا کرتے تھے یا آھٰیٰعٓصٓ اغْفِرْلِیْ ۔ ربیع بن انس کہتے ہیں کٓھٰیٰعٓصٓ کے یہ معنی ہیں کہ وہ جس کو چاہے پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دیتا 1 ؂۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ حروف مقطعات قرآن کے نام ہیں جیسا کہ عبدالرزاق نے قتادہ سے روایت کیا ہے قتادہ کے قول کی وجہ یہ ہے کہ حروف مقطعات سے قرآن اور کتاب ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ (1) [ جب کتاب اور قرآن کو حروف مقطعات کی خبر قرار دیا گیا اور خبر و مبتدا میں اتحاد وجود ضروری ہے تو عمولم ہوا کہ حروف مقطعات قرآن کے اسماء ہیں، کیونکہ اسم و مسمی متحد بالذات ہوتے ہیں ] میں (صاحب تفسیر) کہتا ہوں کہا گر قرآنی مقطعات کی بابت اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ وہ اسماء الٰہی ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی قطعاً ماننا پڑے گا کہ وہ خدا کی بعض صفات پر دلالت کرتے ہیں جیسے کہ اور اسماء صفات دلالت کرتے ہیں علی ہذا القیاس جب وہ قرآن کے نام مان لیے جائیں گے تو بعض صفات قرآنی پر ضرور دلالت کریں گے جیسا کہ لفظ قرآن اور فرقان ‘ نور اور حیات ‘ روح اور ذکر اور کتاب وغیرہ قرآنی صفات میں سے ایک نہ ایک صفت پر ضرور دلالت کرتے ہیں مگر مقطعات کی دلالت دونوں تقدیر پر اس طرح کی نہیں ہے جسے عام لوگ سمجھ سکتے ہوں بلکہ فہم مخاطب کے ساتھ مختص ہے یا جسے اللہ تعالیٰ سمجھانا چاہے اور اس بات کا حکم لگا دینا کہ وہ اسماء الٰہی ہیں اسی وقت متصور ہوسکتا ہے جبکہ اس کے معنی بھی سمجھے جاتے ہوں تو یہ دونوں قول بر تقدیر صحت اسی قول کی طرف راجع ہونگے جس کی ہم سابق میں تحقیق کر آئے ہیں کہ حروف مقطعات خدا اور اس کے نبی کریم ﷺ کے درمیان اسرار ہیں جنہیں نبی ﷺ کے سوا دوسرا سمجھ نہیں سکتا۔ ہاں اگر خدا چاہے تو آپ کے اتباع کاملین بھی سمجھ سکتے ہیں ( اس قول کی بناء پر جس طرح حروف مقطعات کی حقیقت فہم عوام سے خارج ہے۔ ) اسی طرح قرآنی متشابہات کی حقیقت بھی انہیں دریافت نہیں ہوسکتی مثلاً آیت : یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ ۔ الرَّحْمٰنُ عَلَی العَرْشِ اسْتَویٰ اور ھَل یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّاْتِیَھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَام وغیرہ اس قسم کی آیتیں ہیں جن کو ان کے ظاہری معنی پر حمل کرنا جیسا کہ کج فہم فرقہ مجسمہ نے کیا ہے مشکل اور محال ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک آیت صفات الٰہی میں سے ایک ایسی صفت خاص پر دلالت کرتی ہے جس کے سمجھنے کی عام لوگ قابلیت نہیں رکھتے البتہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اتباع میں سے بعض کاملین حضرات اس کی حقیقت اور تہہ کو پہنچ گئے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل اور ابہام کی توضیح یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات لامتناہی اور غیر محدود ہیں جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ قُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا الِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی ( یعنی اے پیغمبر ان لوگوں سے کہو کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لیے سمندر کا پانی سیاہی کی جگہ ہو تو قبل اس کے میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہوجائے گا) اور فرمایا : وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہ ٖ سَبْعَۃُ اَبْحرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَات اللّٰہ (یعنی زمین میں جتنے درخت ہیں اگر ان سب کے قلم ہوں اور سمندر کی سیاہی اور وہ بھی اس طرح پر کہ اس کے ہوچکے پیچھے ویسے ہی سات سمندر اور اس کی مدد کریں غرض ان تمام قلموں اور ساری روشنائیوں سے خدا کی باتیں لکھی جائیں تو بھی خدا کی باتیں تمام نہ ہوں) ۔ اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جو الفاظ معانی کے مقابلہ میں موضوع ہوئے ہیں وہ متناہی اور محدود ہیں۔ ادھر عقول انسانیہ خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کی کنہ اور حقیقت دریافت کرنے سے محض قاصر و عاجز ہیں ہاں معیت ذاتیہ یا صفات غیر متکیفہ میں سے ایک نوع کے ساتھ اس کا دریافت کرنا ممکن اور متصور ہوسکتا ہے اور یہ بات فہم عوام اور نہ صرف فہم عوام بلکہ فہم خواص سے بھی بہت دور ہے کیونکہ خواص لوگ باوجود حصول ادراک کے اس حقیقت کا ادراک مرتبہ ذات میں نہیں کرسکتے جیسا کہ رئیس الصدیقین کا قول ہے۔ شعر العِجْزُ عَنْ دَرْکِ الْاَدْرَاک ادراک 228 والبحث عَنْ سِرِّ الذَّاتِ اِشْرَاک ( یعنی ادراک کے پالینے سے عاجز ہونا بھی ایک قسم کا ادراک ہے اور ذات خداوندی کے سر کی تلاش و جستجو میں مستغرق رہنا شرک) مگر چونکہ بعض صفات باری تعالیٰ کو صفات ممکنات کے ساتھ غایات یا بعض طرح کی مشاکلات میں شرکت ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان صفات کو ایسے اسماء کے ساتھ تعبیر کیا ہے جو ان صفات پر دلالت کرتے ہیں جو مخلوقات میں بھی پائی جاتی ہیں مثلاً حیات اور علم اور سمع اور بصر اور ارادہ اور رحمت اور قہریا اس قسم کی اور صفات باری جب بیان کی جاتی ہیں تو آدمی بجائے خود گمان کرلیتا ہے کہ میں سب صفات الٰہیہ کو سمجھ گیا اور ان کی حقیقت مجھے معلوم ہوگئی۔ حالانکہ واقع میں بجز بعض وجوہ صفات کے اور کچھ خاک نہیں سمجھتا وجہ یہ کہ بعض دوسری صفات جو ممکنات کی صفات سے شرکت نہیں رکھتیں وہ اس طریقہ کے ساتھ تعبیر ہی نہیں کی جاتیں تو ان میں سے بعضی تو ایسی ہیں جن کا علم صرف خدا ہی کو ہوتا ہے اور بعضی صفات وہ بھی ہوتی ہیں جن کا علم و فہم اپنی مخلوقات میں سے خواص اور (اخص الخواص) کو عنایت فرما دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ دعا میں فرمایا کرتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ بِکُلِّ اِسْمٍ ھُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِیْ کِتُابِکَ اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ اَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِہٖ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ ( یعنی بار خدایا میں تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جو تیرے لیے مخصوص ہے اور جو تو نے اپنے لیے مقرر کر رکھا ہے یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو بتادیا ہے یا غیب کے پردہ میں اپنے پاس رکھ کر کسی کو اس کی اطلاع تک نہیں دی ہے) اس حدیث کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور حاکم نے مستدرک میں اور امام احمد اور ابو یعلی نے حضرت ابن مسعود ؓ کی ایک بڑی طویل حدیث میں روایت کیا ہے جس کا شروع ان لفظوں سے ہے لمن اصابہ الھم۔ اسی طرح طبرانی نے حدیث ابی موسیٰ میں روایت کیا ہے الغرض ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان اسماء میں سے جو عام لوگوں سے مخفی ہیں اور جن کے مقابلہ میں ان کی زبان و لغت میں الفاظ وضع نہیں کئے گئے ہیں بعض اسماء اپنے نبی کو اور ان کے علاوہ ان لوگوں کو بھی تعلیم والہام کردیئے ہوں جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی پیروی میں انتہا سے زیادہ سرگرمی دکھائی اور نہ صرف تعلیم والہام پر بس کی ہو بلکہ ان میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا بدیہی اور یقینی علم پیدا کردیا ہو جو (خود بخود) ان حرفوں سے مستفاد ہوتا ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام چیزوں کے نام تعلیم کردیئے اور ان میں ایک بدیہی علم پیدا کردیا بغیر اس کے کہ انہیں پہلے سے اس کا بات کا علم ہو کہ یہ لفظ اس معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو تسلسل لازم آتا اور ممکن ہے کہ یہ اسماء اور اسماء کے ساتھ صفات جناب نبی عربی ﷺ پر ان حروف تہجی یعنی حروف مقطعات کی تلاوت کے وقت جلوہ گر ہوگئے ہوں۔ میرے شیخ و استاد قدسنا اللہ بسرہ نے فرمایا ہے کہ اور کیا ہی خوب فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص سارے قرآن کو من اولہ الی آخرہ نظرکشف سے دیکھے گا تو اس پر یہ بات بخوبی ظاہر ہوجائے گی کیونکہ قرآن مجید گویا برکاتِ الٰہیہ کا ایک نہایت عمیق اور گہرا دریا ہے اور اس عمیق اور طویل و عریض دریا میں حروف مقطعات ایسے ظاہر ہوتے ہیں جیسے بحر ذخار میں ابلتے ہوئے چشمے اور جوش مارتے ہوئے فوارے جن سے ایک بڑا دریا نکل کر بہتا ہے اس مکاشفہ کے لحاظ سے اگر قرآن مقطعات اسماء قرآنی قرار دیئے جائیں تو چنداں بعید نہیں گویا سارا قرآن اس اجمال کی تفصیل ہے جو حروف مقطعات میں موجود ہے۔ واللہ اعلم۔ میں (صاحب تفسیر) کہتا ہوں یہ توجیہ اس قول کے ہرگز مخالف و منافی نہیں ہے جسے بیضاوی نے اختیار کیا ہے کیونکہ قرآن کی ہر آیت کیلئے ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور ہر حد علم کے واسطے ایک مطلع ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ ہر حرف کے لیے حد ہے اور ہر حد کے لیے مطلع ہے۔ اس کو بغوی نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا۔ پس جس طرح حروف تہجی ظاہر میں عنصر قرآن اور بسائط قرآن ہیں اور اکثر کلام ان ہی سے ترکیب پاتا ہے نیز قرآن میں طرح طرح کے لطائف اور قسم قسم کے اعجاز کی رعایت رکھی گئی ہے اسی طرح یہی حروف اجمال قرآن اور برکاتِ الٰہیہ کے بحر ذخار کے جوش زن چشمے اور خدا و ررسول ﷺ کے درمیان وہ اسرار ہیں جن پر خدا کے سوا اور کوئی مطلع نہیں ہوسکتا ہاں وہ شخص اطلاع پاسکتا ہے جسے خدا تعالیٰ خطاب کا اعزاز بخشے یا کسی اور طرح سے اپنے اسرار خاص پر واقف کرنا چاہے۔ واللہ اعلم بمرادہ۔
Top