Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 27
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ١۪ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
الَّذِیْنَ : جو لوگ يَنْقُضُوْنَ : توڑتے ہیں عَهْدَ اللہِ : اللہ کا وعدہ مِنْ بَعْدِ : سے۔ بعد مِیْثَاقِهِ : پختہ اقرار وَيَقْطَعُوْنَ : اور کاٹتے ہیں مَا۔ اَمَرَ : جس۔ حکم دیا اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے اَنْ يُوْصَلَ : کہ وہ جوڑے رکھیں وَيُفْسِدُوْنَ : اور وہ فساد کرتے ہیں فِي : میں الْاَرْضِ : زمین أُوْلَٰئِکَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخَاسِرُوْنَ : نقصان اٹھانے والے ہیں
جو خدا کے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز (یعنی رشتہٴ قرابت) کے جوڑے رکھنے کا الله نے حکم دیا ہے اس کو قطع کئے ڈالتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں
الَّذِيْنَ ( جو) یہ الفاسقین کی صفت ہے یا تو مذمت اور فسق کی تاکید کے لیے لائی گئی ہے اور اگر فاسقین سے کفار اور مسلمان عاصی مراد ہوں تو اس وقت فاسقین سے کفار اور مسلمان عامی مراد ہوں تو اس وقت فاسقین کو اس صفت سے مقید کرنا منظور ہے۔ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ ( اس کے عہد کو توڑتے ہیں) اللہ کے عہد سے یا تو وہ عہد مراد ہے جو اہل کتاب سے توراۃ میں لیا گیا تھا کہ محمد ﷺ پر ایمان لائیں اور جو نعت اس میں مذکور ہے اسے ظاہر کردیں اخفاء نہ کریں یا وہ عہد الست مراد ہے جو تمام بنی آدم سے لیا گیا تھا نقض کے اصلی معنی رسّی وغیرہ کے بل کھولنے کے ہیں پھر اسکا استعمال عہد توڑنے میں ہونے لگا کیونکہ عہد کو بھی حبل یعنی رسی سے تعبیر کرتے ہیں اور اسی تعبیر کی وجہ یہ ہے کہ جیسے رسّی سے دو چیزوں میں وابستگی اور تعلق پیدا ہوجاتا ہے اسی طرح عہد سے بھی آپس میں عہد کرنے والوں کا ایک ارتباط اور تعلق ہوجاتا ہے۔ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِه ٖ ۠ ( اس کو مضبوط کئے پیچھے) میثاقہ میں ہٖ کی ضمیر عہد کی طرف راجع ہے اور میثاق یا تو مصدر بمعنی وثوق ہے اور یا میثاق سے وہ آیات و کتب مراد ہوں جن سے اس عہد کو تقویت دے کر یاد دلایا گیا ہے مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ میں من ابتداء غایت کے لیے ہے کیونکہ عہد توڑنے کی ابتدا اس کے محکم و مضبوط کرنے کے بعد ہی واقع ہوئی ہے۔ وَ يَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ ( اور جن ( تعلقات) کے ملائے رکھنے کا آپ نے حکم فرمایا انہیں قطع کرتے ہیں) اَنْ یُّوْصَلَ ضمیر مجرور سے جو بِہٖ میں ہے بدل ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ ا تعالیٰ نے جو حکم فرمایا تھا کہ تمام انبیا علی نبینا و (علیہ السلام) کے ساتھ رشتہ ایمان ملایا جائے اسے وہ قطع کرتے ہیں اور حکم تو یہ دیا جاتا ہے کہ یوں کہو لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ ( ہم فرق نہیں کرتے اس کے پیغمبروں میں) اور وہ اس کے مقابلہ میں اس کو توڑ کر کہتے ہیں : نُوْمِنُ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَ نکْفُرُ بِبَعْضٍ ( یعنی ہم کتاب کا بعض حکم تو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں) یا یہ معنی ہیں کہ جن حقوق کی بستگی کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے جیسے رحم و قرابت وغیرہ وہ اس کی قطع و برید کرتے ہیں۔ وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ ( اور ملک میں فساد پھیلاتے ہیں) فساد پھیلانے سے مراد قرآن پاک اور رسول اللہ کے ساتھ کفر کرنا اور کھیتی و مویشی کا تباہ کرنا ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ( یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں) نقصان و خسارہ میں اس لیے پڑے کہ انہوں نے صلاح و رشد و ہدایت کے بدلے گمراہی و فساد کو مول لیا۔ جب حق تعالیٰ نے آیات سابقہ میں کفار کے اوصاف کو خوب کھول کر بیان فرمایا اور ان کے ہذیان و بکواس کو نقل کیا ( تو یہ بات بھی اچھی طرح پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ یہ اپنے منعم حقیقی کے حق سے بالکل غافل ہیں اور انہیں اس کی طرف بالکل توجہ نہیں) تو حق تعالیٰ انہیں آگے صنعت التفات کے طور پر استفہام انکاری سے خطاب فرما کر جتلاتا ہے کہ یہ کفرو سرکشی جن حالات میں تم کر رہے ہو وہ کسی طرح مقتضی نہیں کہ کفر و ناشکری کی جائے چناچہ جو حالات آدمی پر وارد ہوتے ہیں مثلاً اوّل محض لاشئے ہونا پھر زندہ ہونا۔ اس کے بعد مرنا اور پھر زندہ ہونا اور پھر جناب باری کی طرف لوٹ کر جانا اور اس کے علاوہ دیگر احوال و انقلابات جو قادر مطلق کی طرف سے وارد ہوتے ہیں یہ سب صاف صاف بول رہے ہیں کہ ایسے قادر، رحیم ومالک الملک پر ایمان لانا ضروری و واجب ہے اور کفران نعمت کسی طرح اور کسی حال میں زیبا نہیں ذیل کی آیت میں ان کے کفر و انکار پر ایک زبردست دھمکی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے :
Top