Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 42
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَلَا تَلْبِسُوْا : اور نہ ملاؤ الْحَقَّ : حق بِالْبَاطِلِ : باطل سے وَتَكْتُمُوْا : اور ( نہ) چھپاؤ الْحَقَّ : حق وَ اَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور مت ملاؤ صحیح میں غلط101 اور مت چھپاؤ سچ کو جان بوجھ کر
101 ۔ یہ تیسری نہی ہے۔ وَتَکْتُمُوْا الْحَقَّ اس کا عطف تَلْبِسُوْا اور یہ چوتھی نہی ہے۔ یہودی خود بھی کفر اور گمراہی میں مبتلا تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی ہر ممکن طریقہ سے گمراہ کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ اس سے پہلی آیت میں خود یہود کو کفر وضلالت سے باز رہنے کا حکم دیا گیا۔ اب اس آیت میں انہیں دوسرے لوگوں کو گمراہ کرنے سے روکا گیا ہے۔ اعلم ان قولہ سبحانہ وامنوا با انزلت امر یترک الکفر والضلال وقولہ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ ۔ علمائے یہود عوام کو گمراہ کرنے کے لیے دو طرح کے حربے استعمال کرتے تھے جن لوگوں کوحضور ﷺ کی تورات میں بیان کی گئی صفات و علامات کا تھوڑا بہت علم تھا ان کے دلوں میں تو شبہات پیدا کر کے انہیں یقین دلا دیتے کہ یہ صفات و علامات اس پیغمبر پر منطبق نہیں ہوتیں۔ ایسے لوگوں کی ہدایت کا جو ادنی سا امکان پیدا ہوتا اسے وہ اس طرح ختم کردیتے۔ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ میں اسی کرتوت سے منع فرمایا ہے۔ اور جو لوگ بالکل ہی بیخبر اور جاہل تھے ان سے وہ حق بات کو چھپاتے تاکہ وہ اندھیرے ہی میں رہیں اور ان کی ہدایت پانے کا کوئی امکان پیدا ہی نہ ہو۔ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ میں اس سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یعنی تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تم لبس وکتمان کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ خلق خدا کو گمراہ کرنا کتنا بڑا جرم ہے۔ اور اس کی سزا کس قدر سخت ہے اس لیے تمہیں تو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ۔ یہ پانچواں امر ہے۔ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ۔ یہ چھٹا امر ہے یعنی خود بھی ایمان لاؤ اور دوسرے لوگوں کو بھی ایمان لانے سے نہ روکو اور اس کے بعد اسلام کے دوسرے اعمال کی بھی پابندی کرو۔ بدنی اور مالی عبادتوں میں سب سے اہم نماز اور زکوۃ تھی اس لیے اس کا ذکر کردیا۔ نیز ان دونوں عبادتوں میں ان کی بنیادی بیماری یعنی حب دنیا کا مکمل علاج تھا اس لیے ایمان کے بعد سب سے پہلے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا۔ نماز سے باطن کی اصلاح ہوتی ہے۔ اس سے بغض وحسد کی بیماری سے دلوں کو شفا حاصل ہوتی ہے۔ اور زکوۃ سے حرص وطمع اور حب جاہ ومال سے نجات مل جاتی ہے۔ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ ۔ یہ ساتواں امر ہے۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ پورے پورے امت محمدیہ میں شامل ہوجاؤ اور اسلام کے تمام احکام قبول کرلو۔ رَاکِعِیْنَ سے مراد امت محمدیہ کے نمازیں ہیں کیونکہ رکوع امت محمدیہ کی خصوصیت ہے۔ ای صلوا مع الذین فی صلوتھم رکوع (معالم ص 46 ج 1)
Top