Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 103
لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ١ؕ هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ
لَا يَحْزُنُهُمُ : غمگین نہ کرے گی انہیں الْفَزَعُ : گھبراہٹ الْاَكْبَرُ : بڑی وَتَتَلَقّٰىهُمُ : اور لینے آئیں گے انہیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے ھٰذَا : یہ ہے يَوْمُكُمُ : تمہارا دن الَّذِيْ : وہ جو كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ : تم تھے وعدہ کیے گئے (وعدہ کیا گیا تھا
ان کو (اس دن کا) بڑا بھاری خوف غمگین نہیں کرے گا۔ اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے (اور کہیں گے کہ) یہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے
لا یحزنہم الفزع الاخبر ان کو بڑی گھبراہٹ غمگین نہ بنائے گی۔ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ فز اکبر سے مراد صور کا اخیر نفخہ (دوبارہ صور پھونکنا) ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے وَنُفِخَ فِی الصُّوْر فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ ۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت ابن عباس ؓ کی نفخۂ اخیرہ سے مراد وہ نفخہ ہے جو دنیا کے اختتام پر ہوگا یعنی نفخۂ اولیٰ (جس سے دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مترجم) بعض نے کہا نفخۂ بےہوشی مراد ہے مگر میرے قول میں اور اس قول میں تضاد نہیں ہے کیونکہ پہلے صور ہی کی آواز سے سب گھبرا جائیں گے (بےہوش ہوجائیں گے۔ مترجم) مرجائیں گے۔ قرطبی نے اسی کو صحیح کہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر احادیث میں صرف دو مرتبہ صور پھونکے جانے کا ذکر ہے ایک نفخۂ صعق (یعنی نفخۂ موت) دوسرا نفخۂ بعث (جس کی وجہ سے سب زندہ ہو کر اٹھ جائیں گے) ابن عربی نے کہا نفخات تین ہوں گے۔ (1) نفخہ فزع۔ (2) نفخہ صعق۔ (3) نفخۂ بعث۔ حضرت مفسر نے فرمایا میرے نزدیک یہی زیادہ صحیح ہے۔ ابن جریر نے تفسیر میں ‘ طبرانی نے مطولات میں ‘ ابو یعلی نے مسند میں ‘ بیہقی نے البعث میں ابو موسیٰ مدینی نے المطولات میں علی بن معید نے کتاب الطاعۃ والعصیان میں ابوالشیخ نے کتاب العظمۃ میں اور عبد بن حمید نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ایک طویل مرفوع حدیث نقل کی ہے اس حدیث میں ہے کہ صور تین بار پھونکا جائے گا (1) نفخۂ فزع (2) نفخۂ صعق (3) نفخۂ قیام۔ حدیث میں فزع کی جو تشریح آئی ہے ہم سورة النمل میں اس کو بیان کریں گے۔ حسن نے کہا فزع اکبر اس وقت ہوگا جب لوگوں کو دوزخ کی طرف لے جانے کا حکم دیا جائے گا۔ ابن جریح نے کہا فزع اکبر اس وقت ہوگا جب موت کو ذبح کردیا جائے گا اور ندا آئے گی اے دوزخ والو دوزخ میں) ہمیشہ رہنا ہے اور موت (بھی) نہیں آئے گی۔ سعید بن جبیر اور ضحاک نے کہا یہ وہ وقت ہوگا جب دوزخ کو اوپر سے سربند کردیا جائے گا اور دوزخ کا سرپوش اس وقت بند کیا جائے گا جب اس کے اندر سے ان لوگوں کو نکالا جا چکا ہوگا جن کو اللہ نکالنا چاہے گا۔ وتتقلہم الملئکۃ اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے۔ یعنی وہ جب قبروں سے نکل کر (جنت کی طرف) جائیں گے تو جنت کے دروازوں پر فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور مبارکباد دیتے ہوئے کہیں گے۔ ہذا یومکم الذی کنتم تو عدون۔ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ یعنی یہ اسی ثواب کا دن ہے جس کا آسمانی کتابوں میں اور پیغمبروں کی زبانی تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
Top