Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 10
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰكَ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۠   ۧ
ذٰلِكَ بِمَا : یہ اس سبب جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا يَدٰكَ : تیرے ہاتھ وَاَنَّ اللّٰهَ : اور یہ کہ اللہ لَيْسَ : نہیں بِظَلَّامٍ : ظلم کرنے والا لِّلْعَبِيْدِ : اپنے بندوں پر
(اے سرکش) یہ اس (کفر) کی سزا ہے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور خدا اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں
ذلک بما قدمت یدک وان اللہ لیس بظلام للعبید۔ (اس سے کہا جائے گا) یہ تیرے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کا بدلہ ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ یعنی قیامت کے دن جب ان کو عذاب دیا جائے گا تو ان سے کہا جائے گا کہ تم نے جو کفر و گناہ کیا تھا یہ تمہارے اسی کرتوت کی سزا ہے اور اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے یعنی انصاف کرنے والا ہے اور عدل کا تقاضا ہے کہ کفر و گناہ کی سزا دی جائے ظالم نہ ہونے سے بطور کنایہ یہ مراد ہے کہ عادل ہونا جیسے آیت لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ ۔۔ میں عدم محبت سے مراد ہے نفرت اور ناپسندیدگی۔ بخاری ‘ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ بعض لوگ مدینہ میں آکر مسلمان ہوجاتے تھے۔ اسلام کے بعد اگر اس کی بیوی کے لڑکا ہوتا اور گھوڑیوں کے بچے پیدا ہوتے تو کہتا یہ مذہب اچھا ہے اور عورت کے لڑکا نہ ہوتا اور گھوڑیوں کے بچے نہ پیدا ہوتے تو کہتا یہ دین برا ہے اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top